حکام اور ذرائع نے بتایا ہے کہ مائیکروفنانس اداروں نے پاکستان میں سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) کی شناخت کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ ڈیٹا بیس کا استعمال شروع کر دیا ہے تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات کی تعمیل کے پیش نظر مالیاتی، ریگولیٹری اور ساکھ کے خطروں پر نظر رکھی جا سکے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈیٹابیس حال ہی میں ایک نان بینکنگ فنانشل انسٹی ٹیوٹ ’فرسٹ پیراماؤنٹ مضاربہ (ایف پی ایم) نے تیار کیا ہے، جو 2 لاکھ سے زائد سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) کا ڈیٹا رکھتا ہے۔
ایف پی ایم ایک غیر بینکنگ مالیاتی ادارہ ہے جو پیرا ماؤنٹ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے زیرانتظام ہے، جو ان مخصوص مقاصد کی تعمیل کے لیے نظام تیار کرنے والا پہلا ادارہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے علاوہ پاکستان میں مائیکرو فنانس اداروں کو اب اپنے کاروبار کی حفاظت اور شفافیت کے لیے بھی اس نظام کو نافذ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
پیرس میں قائم عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے ادارے ایف اے ٹی ایف کے مطابق سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) سے مراد ایک ایسا فرد ہے جسے کوئی نمایاں عوامی ذمہ داری سونپی گئی ہو۔
یہ لوگ چونکہ ایسے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جنہیں ناجائز فنڈز کی لانڈرنگ یا بدعنوانی یا رشوت جیسے دیگر پیش گوئی کے جرائم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس لیے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے مطابق ان شخصیات کے ساتھ کاروباری تعلقات کے لیے اضافی اے ایم ایل/ سی ایف ٹی اقدامات کے اطلاق کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والے بینک، سرکاری اور نجی مالیاتی ادارے اور مالیاتی امور سے نمٹنے والے ادارے اور یہاں تک کہ رئیلٹرز بھی کچھ عرصے سے اس طرح کا ڈیٹا بیس استعمال کر رہے ہیں، خاص طور پر گزشتہ سال جون کے بعد سے اس کا استعمال مزید بڑھا جب یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی دہشت گردی کی مالی معاونت کی ’گرے لسٹ‘ میں برقرار رہے گا۔
پاکستان کو 2018 میں اس فہرست میں رکھا گیا تھا جس کے سبب غیر ملکی فرمز ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے زیادہ محتاط ہوگئی تھیں، رواں ماہ کے آغاز میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 34 ایکشن پوائنٹس میں سے صرف 2 ناکام اہداف کے ساتھ اس فہرست میں برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے مالیاتی نظام میں باقی خامیوں کو جلد از جلد دور کرے۔
اس صورتحال نے حکام اور مقامی مالیاتی اداروں کو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے جدید حل اپنانے پر مجبور کر دیا۔
مائیکرو فنانس اداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ اقدام ریگولیٹری اداروں اور مالیاتی مارکیٹ کے نگراں اداروں کی ہدایات کے مطابق کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس کے ڈیٹا بیس کو محفوظ بنانے کے لیے اس کی سیکیورٹی اور باقاعدہ کاروباری کارروائیوں میں شفافیت کے بڑھتے ہوئے چیلنج بھی اس کی اہم وجہ ہیں۔
مقامی مائیکرو فنانس تنظیم کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ان کے ادارے نے حال ہی میں سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) کا تعین کرنے کے لیے ایف پی ایم کی خدمات حاصل کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضرورت ریگولیٹری باڈی کی ہدایات کے بعد پیدا ہوئی اور پھر ان کے ڈیٹا بیس کے تحت ایسے کسی بھی کلائنٹ یا فرد کی نادانستہ شمولیت کے خطرے کو دور کرنا بھی ضروی تھا جو ان کے آپریشنز کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ تازہ تکنیکی حل تلاش کرنے سے پہلے ہمارے پاس قرضوں کے لیےرابطہ کرنےوالے افراد کی اسناد، ذاتی تفصیلات اور مختصر ماضی جاننے کے لیے ایک خاص طریقہ کار موجود تھا، لیکن یہ طریقہ کار ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی تعمیل کرنے کے لیے ناکافی تھا، اب اس اقدام سے ہم اور ہمارے تمام حریف کافی حد تک مطمئن ہوگئے ہیں، اس نے ہمارا کام کافی حد تک آسان بنادیا ہے۔
پاکستان مائیکرو فنانس انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی ایم آئی سی) نے حال ہی میں سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) پر نظر رکھنے کے لیے نظام وضع کیا ہے جو کہ مائیکرو فنانس فراہم کرنے والوں کے لیے ایک قومی سطح کا سب سے بڑا ادارہ ہے، 23 ارب روپے سے زائد کے قرضے کے پورٹ فولیو کی حامل اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے آخر کار اس قومی ضرورت کا حل تلاش کر لیا ہے اور اس اقدام سے اس کے 26 شراکت داروں اور 7 لاکھ 32 ہزار سے زائد کلائنٹس کی مدد ہو گی۔
پی ایم آئی سی کے سی ای او سید وجیہ حسن نے کہا کہ سیاسی امور میں متحرک افراد (پی ای پیز) کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایف پی ایم کی پالیسیاں بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے اپنایا گیا طریقہ کار بہترین عالمی طریقوں پر مبنی ہے، ڈیٹا اپ ڈیٹ کرنے کے لیے بھی ایف پی ایم کی ریسرچ ٹیم خودکار یا نیم خودکار ذرائع سے مسلسل نظر رکھتی ہےاور جو بھی نئی معلومات ملتی ہے اسے فوری طور پر حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔