لاہور: سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی مخلوط حکومت کے لیے اب وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مزید تاخیر میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دریں اثنا اسی روز اپوزیشن جماعتیں بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے میں کامیاب ہو گئیں جس سے صوبائی حکومت کے لیے اپنے کارڈ کھیلنے کی گنجائش مزید کم ہو گئی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں حکمران اتحاد نے ایک بار پھر اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے ووٹ نہ دیں ورنہ ان کو ڈی سیٹ کر دیا جائے گا، حمزہ شہباز کا مقابلہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) اتحاد کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی سے ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کے نئے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی ’سرعام خریدوفروخت‘ کا نوٹس لے، ہم آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر ایک مضبوط فیصلے کی امید کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں مشترکہ اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے شاید پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کی ضرورت بھی نہ پڑے کیونکہ ان کے پاس سابق حکومت کے اتحادیوں کی حمایت سمیت مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کو اپنا وزیراعلیٰ بنانے کے لیے پی ٹی آئی مخالفین کی اچھی خاصی تعداد کی حمایت کی ضرورت ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل خرم چغتائی نے جمعرات کو ڈان کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے صورتحال نازک ہوگی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن اپنی گنتی پوری کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی پر انحصار کررہی ہے، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہونے سے بچنے کے لیے ووٹنگ کے لیے نہیں آ سکتے، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو آگے بڑھانے کے لیے مسلم لیگ(ن) کو ہائی کورٹ کی مداخلت درکار ہو گی۔
دریں اثنا، مسلم لیگ (ن) وزیراعلیٰ کے قبل از وقت انتخاب کے لیے آج ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، پارٹی کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہم جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کو حوصلہ ملا کہ اسے صوبہ پنجاب میں بھی ایسا ہی ریلیف ملے گا، ہم پرامید ہیں کہ پنجاب میں قائد ایوان کا انتخاب چند دن میں ہو جائے گا اور یہ عمل کسی رکاوٹ سے پاک ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور کھوکھر گروپ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی وزیراعلیٰ کے عہدے پر کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنی نشستیں قربان کر دیں گے۔
ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن کو پنجاب اسمبلی میں داخلے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اسپیکر پرویز الٰہی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے اجلاس بلانے کے ‘حکم’ کو ‘غیر قانونی’ قرار دیے جانے کے بعد اسمبلی کو سیل کر دیا گیا تھا، اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق ڈپٹی سپیکر کے دستخط شدہ اسمبلی کے پہلے نوٹیفکیشن کے مطابق اجلاس 16 اپریل کو بلایا جائے گا۔
پرویز الٰہی نے اسپیکر کے طور پر اپنا اختیار استعمال کیا تھا اور دوست محمد مزاری کو سونپے گئے اختیارات فوری طور پر واپس لینے کا حکم دیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف ان کے اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد ان سے سیشن کی صدارت کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔