سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کرنے کی رولنگ پر سماعت شروع ہوگئی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر آج مسلسل پانچویں روز سماعت کرے گا۔
سماعت کے آغاز میں پنجاب کی صورتحال کا تذکرہ ہوا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا، سابق گورنر چوہدری سرور آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔
پنجاب سے متعلق کوئی حکم نہیں دیں گے، معاملہ ہائیکورٹ لے کر جائیں، چیف جسٹس
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ بعدازاں چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟
عدالت وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد کا جائزہ نہیں لے سکتی، بیرسٹر علی ظفر
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟
اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی۔
صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔
گزشتہ 4 سماعتوں میں کیا ہوا؟
گزشتہ سماعت میں صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ درحقیقت پارلیمان کے استحقاق میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پارلیمان کے بنائے قانون کو پرکھ سکتی ہے لیکن مداخلت نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ آئین کا آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر کسی نے غداری کی تو ملک کے سربراہ نے پوری اسمبلی ہی اڑا دی۔
قبل ازیں 5 اپریل کو ہونے والی سماعت میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور مسلم لیگ (ن) کے مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جبکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔۔
اس سے قبل 4 اپریل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
اس معاملے کی پہلی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیے تھے۔
تحریک عدم اعتماد مسترد
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔
تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔
فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔
اسمبلی تحلیل
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔
بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔
ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ از خود نوٹس
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔