اسلام آباد () سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) نے پاکستان میں سال 2024 میں صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے جامع رپورٹ جاری کر دی ، رپورٹ میں صوبہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغواء اور گھریلو تشدد کے واقعات کا صوبہ وار تجزیہ فراہم کیا گیا ہے۔ ایس ایس ڈی او نے رپورٹ میں صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے کیسز اور مجرموں کے خلاف کم سزائوں کی شرح کو اجاگر کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں ملک بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 32,617 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں 5339 جنسی زیادتی، 24439 اغوا ، 2238 گھریلو تشدد اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کے باوجود، سزاؤں کی شرح تمام صوبوں میں نہایت کم ہے۔ ملک بھر میں جنسی زیادتی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزا کی شرح صرف 0.5% ہے، جبکہ اغواء کے مقدمات میں یہ شرح محض 0.1% تک محدود ہے۔ گھریلو تشدد کے مقدمات میں سزا کی شرح نسبتاً زیادہ یعنی 1.3% ہے تاہم یہ بھی انصاف کی عدم فراہمی کو ظاہر کرتی ہے۔
پنجاب میں صنفی بنیاد پر تشدد کے سب سے زیادہ 26,753 کیسز رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 225 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے، مگر صرف 2 افراد کو سزا دی گئی۔ 4,641 ریپ کیسز درج ہوئے جن میں سزا کی شرح محض 0.4% رہی۔ 20,720 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن صرف 16 کیسز میں سزائیں سنائی گئیں۔ گھریلو تشدد کے 1,167 کیسز میں صرف 3 مجرموں کو سزا دی گئی۔
خیبر پختونخوا میں 3,397 صنفی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 134 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آئے، مگر صرف 2 سزائیں سنائی گئیں۔ 258 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 1 مجرم کو سزا دی گئی۔ 943 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 1 مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 446 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
سندھ میں 1,781 صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 134 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رونما ہوئے لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ 243 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، مگر کوئی سزا نہیں ہوئی۔ 2,645 اغوا کے واقعات سامنے آئے، لیکن تمام کیسز میں ملزمان سزا سے بچ نکلے۔ گھریلو تشدد کے 375 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
بلوچستان میں 398 صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 32 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آئے، لیکن صرف 1 مجرم کو سزا ہوئی۔ جنسی زیادتی کے 21 واقعات رپورٹ ہوئے مگر کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ 185 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 160 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 25 مجرموں کو سزا دی گئی ، یہ گھریلو تشدد کے کیسز میں کسی بھی صوبے میں سب سے زیادہ سزا کی شرح ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 220 صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ 22 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات سامنے آئے، مگر کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی گئی۔ 176 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 7 مجرموں کو سزا دی گئی ، لیکن کسی میں بھی ملزم کو سزا نہیں سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 22 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں کسی بھی مقدمے میں سزا نہیں سنائی گئی۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ یہ رپورٹ صوبائی پولیس محکموں سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے جو کہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے ذریعے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صنفی تشدد کے متاثرین کے تحفظ اور مجرموں کو سزا دلانے کے لیے فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ہر متاثرہ فرد کو انصاف ملنا چاہیے اور موجودہ نظام کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں پولیس کی تفتیش کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا، قانونی کارروائیوں کو مضبوط کرنا ہوگا اور عدالتی عمل کو تیز کرنا ہوگا تاکہ متاثرین کو انصاف کے لیے برسوں انتظار نہ کرنا پڑے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس نے حکومت ، سول سوسائٹی اور عدالتی اداروں سے اپیل کی کہ وہ صرف پالیسی سازوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ انسانیت کے ناطے کام کریں تاکہ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جا سکے جہاں متاثرین خود کو محفوظ، بااختیار اور انصاف کے حصول کے لیے پرعزم محسوس کریں۔
ایس ایس ڈی او کے ڈائریکٹر پروگرامز شاہد جتوئی نے کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے فوجداری نظام انصاف میں پائی جانے والی سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتی ہے ، انہوں نے کہا کہ نظام میں موجود سقم، تحقیقات میں کمزوریاں، شواہد کو محفوظ کرنے کے ناقص طریقے، سماجی دباؤ اور عدالتی عدم جوابدہی کے باعث 0.5 فیصد تک کم سزاؤں کی شرح دیکھی جا رہی ہے۔ رپورٹ اس امر کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح قانونی معاونت کی کمی، طویل عدالتی کارروائیاں اور ثقافتی دباؤ متاثرین کو اپنے مقدمات درج کرانے یا انہیں آگے بڑھانے سے روکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فوجداری نظام انصاف کو اس بحران کے مطابق از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو سزا اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔
Load/Hide Comments