جس روز ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلیاں تحلیل کیں اس روز بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی بھی صورت میں آئین پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ عدالتِ عظمیٰ کو آگے بڑھ کر اسے چیلنج کرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارا آئین صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں ہے۔ اگر ہم قومی اسمبلی میں آئین کو نافذ نہیں کرسکتے تو پھر ہم کہیں بھی آئین کی بالادستی کا خواب نہیں دیکھ سکتے‘۔
اس ٹوئیٹ کے پیچھے آئین کے حوالے سے دلچسپ مفروضے تھے جن کو گہرائی میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔
اگرچہ ہمیں مزید ثبوتوں کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن پھر بھی حالیہ واقعات نے ظاہر کردیا ہے کہ ہماری انتظامیہ خود کو کسی طرح کے دستوری قوانین کے تابع نہیں سمجھتی۔ اس نے ایک بار پھر ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے کہ آئین کا محافظ کون ہے؟
بلاول بھٹو کی ٹوئیٹ میں سپریم کورٹ سے ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو ’آگے بڑھ کر چیلنج‘ کرنے کے مطالبے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ سپریم کورٹ ہی آئین کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دستوری نظام سے امیدیں لگانا قابل فہم ہے۔ نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ترقی پسند سول سوسائیٹی اور دانشور بھی آئین کو اپنا رہنما تصور کرتے ہیں۔
تاریخِ پاکستان اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب آئینی حدود کو پامال کیا گیا ہے تب تب ہمیں ناقص حکمرانی اور قانون کی کم ہوتی حکمرانی دیکھنے کو ملی ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ 7 اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی بحال کرنے کا فیصلہ بلاول بھٹو کی امیدوں کے عین مطابق تھا۔
تاہم یہاں ایک اہم بات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کو ثالث ہونا چاہیے اس کا یہاں مطلب نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کی تشریح بھی ہمیشہ درست ہوگی۔ اسے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ ان ’مقاصد‘ یا آزاد حقائق کی پابند ہے جو آئین بیان کرتا ہے۔
اس وجہ سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر خود سپریم کورٹ خود آئین کی پابند ہے تو یہ کوئی حتمی فیصلہ دینے والا ادارہ کیسے ہوسکتا ہے؟
اپنے حالیہ فیصلے کے باوجود آئین کی پاسداری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ریکارڈ ملا جلا ہی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ سپریم کورٹ نے ہر فوجی بغاوت کی توثیق کی بلکہ بدنیتی کی بنیاد پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلوں کو بھی برقرار رکھا۔ شاید سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی بھی اچھی محافظ نہیں رہی۔ یہ ہیبیس کارپس کے حق کے تحفظ میں ناکام رہی، اس نے سویلینز کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو برقرار رکھا۔
یہ سوال کہ ہم سپریم کورٹ پر کیوں انحصار کریں دراصل ایک ایسے تضاد کے کی طرف جاتا ہے جو دستوری نظام کی بنیاد ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آخر کیسے ہم ایک فرد یا ادارے کو آئین کے نفاذ کا اختیار دیتے ہیں اور پھر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ آئین کے پاس ہی تمام تر قوت ہے؟
یہ تضاد صرف اسی وقت دُور ہوسکتا ہے جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آئین کے اوپر بھی ایک قوت موجود ہے۔ ہمارے آئین کی تمہید میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ’۔۔۔ہم، جمہورِ پاکستان ۔۔۔بذریعہ ہذا، قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ دستور منظور کرکے اسے قانون کا درجہ دیتے ہیں اور اسے اپنا دستور تسلیم کرتے ہیں‘۔
یہاں ’جمہور‘ ایک مبہم اور بے ترتیب چیز کی طرح لگتے ہیں، آخر کس طرح جمہور آئین کے نفاذ میں کوئی براہ راست کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ہم بھول چکے ہیں کہ بڑی عوامی تحاریک بھی ممکن ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی سالوں میں ہم نے ایسی کوئی تحریک نہیں دیکھی۔ تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوامی احتجاج کے ذریعے غیر آئینی اقدامات کو ختم کیا جاسکتا ہے اور غیر قانونی حکومتوں کو گرایا بھی جاسکتا ہے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب ’جمہور‘ ایک منظم قوت بن جائیں جو مزاحمت کرسکیں اور طاقت اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔
عالمی تاریخ کے اس موڑ پر جب نیو لبرل ازم کی قوتیں ناقابل تسخیر نظر آتی ہیں اور لبرل جمہوریت خطرے میں ہے، ہمیں عوامی تحریکوں کی ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جو آئینی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ چلی میں ہونے والی حالیہ پیش رفت مقبول دستوری حکومت کے امکانات کی ایک شاندار مثال پیش کرتی ہے۔ 2019ء میں چلی میں صدر کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔ اکتوبر 2019ء میں 10 لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور صدر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ نومبر 2019ء میں چلی کی نیشنل کانگریس نے اگستو پینوچت دور کے آئین کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ریفرنڈم کی حامی بھری اور چلی کی عوام نے نئے آئین کے حق میں ووٹ دیا۔ گزشتہ سال حقیقی طور پر جمہوری طریقے سے غور و خوص کے بعد چلی کے 155 شہریوں کو نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے چنا گیا۔
ہم نے دیکھا کہ کس طرح چلی میں عوامی تحریک کے ذریعے آئینی اصلاحات کی گئیں۔ یہ اس سیاسی عمل کے بالکل برعکس ہے جہاں سنگین سیاسی ڈیڈ لاک کے دوران آئین کی وضاحت غیر نمائندہ ججوں کا بینچ کرتا ہے۔
بلاول بھٹو کی ٹوئیٹ کی آخری سطر ہماری سیاسی جماعتوں کے تصور کی حد بیان کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم قومی اسمبلی میں آئین کو نافذ نہیں کرسکتے تو پھر ہم کہیں بھی آئین کی بالادستی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے‘۔
اپوزیشن جماعتوں کو آئینی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ’جمہور‘ کو پکارنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی جانب سے اقتدار پر غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنے کے لیے عوام کی زبردست قوت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت پر اعتماد کرتے ہیں۔
بلآخر دستوری قانون کے بجائے سیاسی قوتیں جمہوری مستقبل کی طرف بڑھنے یا اس راہ میں رکاوٹ کا سبب بنیں گی۔ اگرچہ ہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مطمئن ہیں لیکن ہمیں ان غیر جمہوری قوتوں کا بھی ادراک کرنا چاہیے جو ہمیں سیاسی بحران کی جانب لے جاتی ہیں۔ ہم یہ دکھاوا نہیں کر سکتے کہ آئینی خلاف ورزیوں کا تدارک ہو جانے کے بعد ہمارا سیاسی بحران ٹھیک ہو جائے گا اور ہم ان سیاسی قوتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو پاکستان میں جمہوریت کو ناکام بنا رہی ہیں۔
جمہوریتوں کی تعمیر ان اصولوں کو مضبوط کرنے کا عمل ہے جو طاقت پر اجارہ داری رکھنے والوں کے اختیارات کو محدود کرتے ہیں، تاکہ حکمرانی کے ادارے ایک دوسرے کے احتساب کے ذریعے اپنی حدود میں رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئینی اصول صرف اعلیٰ عدالتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ سیاسی عمل میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف حکومت میں رہے گی یا نہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسی جمہوری سیاست کی تعمیر کرسکتے ہیں جہاں ہماری آئینی اقدار کا ادراک ہوسکے۔