اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے تمام فریقین کونوٹسز جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کومعاونت کےلیے طلب کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظرمیں لگتا ہے یہ مقدمات بنتے ہی نہیں، پہلے مطمئن کریں مقدمات کیسے بنتے ہیں۔
ریاست کو چاہیے کہ پوری لیڈرشپ کو بٹھائے، یہ طے کیا جائے کہ مذہب کو ٹُول کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ مذہبی منافرت نہ ہونے کو یقینی بنائے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کی توہین مذہب مقدمات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے اسلام آباد پولیس کی رپورٹ جمع کرائی۔عدالت نے مسجد نبویﷺ واقعے پردرج مقدمات کیخلاف فواد چوہدری، شہبازگل اورقاسم سوری کی درخواست سمیت تمام درخواستیں یکجا کرنے کی ہدایت کردی۔
دوران سماعت فوادچوہدری نے موقف اپنایا کہ ماضی میں بھی بہت غلطیاں ہوئے، مگرایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیرداخلہ نے معاشرے کوتقسیم کردیا، عدالت پراعتماد نہیں ہوگا توکس پراعتماد ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے معاشرے میں استحکام صرف سیاسی لوگ ہی لاسکتے ہیں۔ مذہبی الزامات لگانا بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
آئین پاکستان کی بہت بے توقیری ہوچکی ہے، آئین کوسپریم نہیں سمجھتے ورنہ آج ملک میں یہ حالات نہ ہوتے، ادارے بھی آئین کے تابع ہیں۔ جس کے تحت ادارے جوابدہ بھی ہیں، سب کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے۔
کیا سیالکوٹ واقعے سے ریاست نے سبق نہیں سیکھا، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان معاملات کو دیکھے، مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، عدالت نے سماعت دو ہفتے تک ملتوی کردی۔