وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے متحدہ اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سیاسی اختلاف کو دشمنی مت سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک امتحان کا مرحلہ ہے، معاہدے میں ذاتی یا جماعتی مفاد شامل نہیں ہے۔ درخواست کرتا ہوں کہ ایسے دور ہو جہاں سیاسی مخالفت کو دشمنی نہ سمجھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امید کرتا ہوں اب دعووں اور وعدوں سے آگے کام کریں گے،ہمارے معاہدے کی ایک ایک شق پاکستان کے عوام کیلئے ہے۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم دن ہے۔ اپوزیشن کا متحدہ جرگہ مل بیٹھا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور خالد مقبول صدیقی نے کھلے دل کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم ایوان میں عددی برتری کھو بیٹھے ہیں، مجھے ان سے امید تو نہیں مگر انہیں چاہئے کہ وہ استعفی دے کر نئی روایت قائم کریں۔
تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کا اجلاس 3 اپریل تک جاری رکھنے کا فیصلہ
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا شکر گزار ہوں جو انہوں نے کراچی کا مفاد اور صوبہ کے مسائل دیکھتے ہوئے فیصلہ لیا ہے اور اپوزیشن کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہ تاریخی فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کا ورکنگ تعلق کا عدم اعتماد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان استعفی دے دیں یا کل ہی عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں۔
جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چار سال قبل شروع ہونے والا ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم ایم کیو ایم کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اس کے ثمرات پورے ملک کو ملیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں گھٹیا روایات اور تشکیل و رسوائی، تمسخر کی سیاست رہی، ہم پاکستان میں صحتمند سیاست چاہتے ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس تھوڑی سے بھی اخلاقیات باقی ہیں تو مستعفی ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 175 کی ہے جب کہ 172 کی ضرورت تھی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جن دوستوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا، ان سے کہوں کہ ابھی وقت ہے ہمارے ساتھ شامل ہوں اور قومی دھارے کا حصہ بن جائیں۔