پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کے ’غیر جانبداری‘ کی لہر پر سوار ہونے کا تصور مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ ’ ہم غیر جانبداری کے ساتھ یا اس کے بغیر اپنی جنگ جاری رکھیں گے‘۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان نیوز کے اینکر عادل شاہ زیب کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تاریخ میں یہ ثابت کیا ہے کہ غیر جانبداری ہو یا نہیں ہو ہمیں لڑنا پڑے گا اور ہمیں اپنا مقام چھیننا پڑے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ادارے جنرل ضیاالحق کی آمریت میں بھی غیر جانبدار نہیں تھے، لیکن ہم نے تب بھی لڑائی لڑی، ادارے جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی غیر جانبدار نہیں تھے لیکن ہم نے پھر بھی اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔
بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اپوزیشن کے قانون سازوں کی جانب سے ایوان میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے۔
تحریک پر جمعرات کو بحث جبکہ 7 روز کے اندر اس پر ووٹنگ کی جائے گی۔
اپوزیشن اور تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم اورطاقتور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے خراب ہوگئے ہیں، جو فی الحال کسی کا ساتھ نہیں دے رہی ہے یا محض غیر جانبدار ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کی جدوجہد نئی نہیں ہے، یہ پہلے دن سے موجودہ حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہم یہ لڑائی اس مفاہمت کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ چاہے غیر جانبداری ہو یا نہیں ہو ہمیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جنگ لڑنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کے لیے لڑنا پڑے گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ غیر جانبداری کا سب سے بڑا نمونہ تحریک عدم اعتماد ہے، اگرتمام ادارے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں کام کریں گے تو یہ ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ 3 دہائیوں سے جدوجہد کر رہا ہے، ہم ایک یا دو قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر ہمیں ایک قدم پیچھے ہونا پڑتا ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت برقرار رکھنے کے لیے ہم مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا خطاب اس بات کا ثبوت ہے کہ ’وہ کانپ رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب خان صاحب پریڈ گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر صفحے پر لکھی تحریر پڑ رہے تھے تو وہ پسینے میں شرابور ہورہے تھے اور ’یہ واضح تھا کہ وہ خوف زدہ اور گھبرائے ہوئے ہیں‘۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ حکومت میں موجود ہر شخص کو اس ہی حالت کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ ہم جمہوری فتح اور سلیکٹڈ کو شکست دینے کی تیاری کر رہے ہیں، عمران خان کے لیے خوشامد کے الفاظ استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ ان کی پرورش اور حمایت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سےکی گئی۔