پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) نے آج ہونے والے پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بھرپور احتجاج کا مشترکہ فیصلہ کیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور اس کے نتیجے میں گرفتاریوں سمیت دباؤ کے دیگر ہتھکنڈوں کے پیش نظر مشترکہ اپوزیشن نے اپنے تمام اراکین صوبائی اسمبلی کو ہدایت دی ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کریں، احتجاج کریں اور بجٹ کے خلاف زیادہ سے زیادہ کٹ موشنز پیش کریں تاکہ مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔
صوبائی حکومت مالی سال 23-2022 کے لیے آج اپنا پہلا مالیاتی بجٹ پیش کرنے والی ہے جس کا کُل سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) تقریباً 700 ارب روپے کا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کے تقرر کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس کے لیے 2 سابق وزرا میاں محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال مضبوط امیدوار ہیں۔
ایک روز قبل چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سابق وزیر قانون بشارت راجا کو اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری سونپی جائے کیونکہ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کے امور مؤثر طریقے سے چلائے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ ’اب اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے 6 امیدوار میدان میں ہیں اور ان کے نام حتمی فیصلے کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو بھیجے گئے ہیں‘۔
ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے ان امیدواران میں سابق وزیر بشارت راجا، سبطین خان، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، مراد راس اور فیاض الحسن چوہان شامل ہیں۔
دونوں جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں لاہور کی 4 نشستوں سمیت پنجاب بھر کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب لڑنے اور دھاندلی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بھی تیار کی گئی، اجلاس میں اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمات کے اندراج اور ان کی گرفتاریوں کی مذمت بھی کی گئی۔
اجلاس میں بھارتی حکمران جماعت کے 2 رہنماؤں کے توہین آمیز تبصروں کے خلاف پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا گیا، فیصلے کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے حافظ عمار یاسر قرارداد ایوان میں پیش کریں گے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ حکومت بدترین انتقامی کارروائیوں کا ارتکاب کر رہی ہے، صوبہ پنجاب ’پولیس اسٹیٹ‘ بن چکا ہے اور درحقیقت پنجاب کو صوبائی پولیس چیف چلا رہے ہیں۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے استعمال کی جانے والی ریاستی طاقت کے مقابلے میں اپوزیشن کی خواتین اراکین صوبائی اسمبلی کی بھرپور مزاحمت کا اعتراف کیا۔
چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ‘پنجاب پولیس کے آئی جی کے طرز عمل کو استحقاق کمیٹی میں اٹھایا جائے گا اور انہیں اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑے گا’۔
اجلاس میں بعض ارکان نے شکایت کی کہ جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں وہاں دھاندلی کا عمل شروع ہو چکا ہے، انہوں نے چیف سیکریٹری کے ان اضلاع کے دوروں پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا جہاں ضمنی انتخابات ہوں گے۔
بشارت راجا نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی مقدمات سے خوفزدہ نہیں ہیں، انہوں نے زور دے کر کہا کہ 17 جولائی کو حکومت کے دباؤ کے ہتھکنڈوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
رکن صوبائی اسمبلی سردار شہاب الدین نے کہا کہ حکومت ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے لیے تمام حلقوں کے مخصوص پولنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنا رہی ہے۔
مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کا خصوصی سیل قائم کیا جائے گا جہاں اراکین ضمنی انتخاب میں دھاندلی کی شکایات درج کرا سکیں گے۔
اجلاس میں ضمنی انتخابی حلقوں میں تمام اراکین اسمبلی کو ذمہ داریاں سونپنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا جبکہ ضمنی انتخابات کی مہم چلانے کے لیے خواتین پارلیمنٹرینز کو تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
دریں اثنا سابق وزیر فیاض الحسن چوہان نے میڈیا کو بتایا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بجٹ باآسانی پاس کرانے کے لیے اپوزیشن کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ان کے متعلقہ شہروں میں جعلی ایف آئی آر درج کر کے روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور 25 مئی کو لانگ مارچ کرنے پر انہیں گرفتار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھ سمیت اپوزیشن کے اراکین صوبائی اسمبلی کو اوچھے ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکتا‘۔
فیاض الحسن چوہان نے ضمنی انتخابات والے حلقوں میں اپنے پسندیدہ افسران کے تبادلے اور تعیناتیوں پر بھی حکومت کی سرزنش کی، انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد کی گئی تبادلوں اور تعیناتیوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ ضمنی انتخابات حمزہ شہباز شریف کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئے ہیں کیونکہ اگر مسلم لیگ (ن) 186 نشستیں نہ جیت سکی تو ان کی حکومت گر جائے گی۔