آئینی بحران کے دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کی مختصر تاریخ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں آئینی بحران کے دوران متعدد بار مداخلت کی ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسے واقعات ہوئے ہیں جب عدالتوں کو انتہائی متنازع ایگزیکٹو اقدامات بشمول آئین کی تنسیخ یا معطلی پر اپنی مہر لگانے کے لیے استعمال کیا گیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف ججوں نے ایگزیکٹو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔

عدلیہ اور انتظامی تعلقات کی سمت کا تعین فیڈریشن آف پاکستان بمقابلہ مولوی تمیز الدین کیس میں 1955 میں وفاقی عدالت(موجودہ سپریم کورٹ) کے فیصلے میں طے کی گئی تھی۔

1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا تھا اور اس برطرفی کو اس وقت کے صدر مولوی تمیز الدین نے چیف کورٹ موجودہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

چیف کورٹ نے اسمبلی کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا تھا تاہم جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدلیہ کی آزادی کا دوسرا امتحان اس وقت آیا جب عدالت عظمیٰ کو 1958 کی مارشل لا حکومت میں ریاست بمقابلہ ڈوسو اور دیگر کی قانونی حیثیت پر فیصلہ سنانے کے لیے کہا گیا۔

جسٹس منیر کی زیر سربراہی کام کرنے والی عدالت نے ہانس کیلسن کے نظریہ ضرورت سے متاثر ہو کر کہا کہ ایک کامیاب انقلاب یا بغاوت آئین کو تبدیل کرنے کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ ہے۔

لہٰذا جنرل ایوب کی جانب سے جاری کردہ قوانین (Con­tinuation in Force) آرڈر 1958 کے تحت نئی قانونی حکومت تشکیل کی دی گئی جس سے عدالتوں سمیت تمام قانونی اداروں نے اپنی درستگی کا قانونی جواز حاصل کیا۔

عدالت کے فیصلے کو مستقبل میں فوجی مہم جوئی کے لیے ایک دعوت تصور کیا گیا۔

1972 میں عاصمہ جیلانی بمقابلہ پنجاب حکومت کے درمیان ڈوسو کیس کا فیصلہ خود سپریم کورٹ کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں آیا، جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیرآئینی اور ناقابل توثیق قرار دیا تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ مارشل لا کا اعلان کس اختیار کے تحت کیا جا سکتا ہے اس کی تعریف کرنا مشکل ہے، فوجی بغاوت یا کسی فوجی حکمران کی قانونی حکومت بذات خود جائز نہیں اور اس کے بجائے اس نے قانونی حیثیت صرف اس وقت حاصل کی جب عدالتوں نے انہیں قانونی طور پر تسلیم کیا۔

اس فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ مستقبل میں عدلیہ ایگزیکٹو کے غیرآئینی اقدامات پر اپنی مہر نہیں لگائے گی۔

تاہم یہ امید بھی زیاد عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ بیگم نصرت بھٹو بمقابلہ چیف آف آرمی سٹاف اور فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں سپریم کورٹ نے 1977 میں ایک بار پھر فوجی بغاوت کا اعلان کیا جو اس بار جنرل ضیاالحق نے کی اور ریاستی ضرورت اور عوام کی فلاح و بہبود کی بنیاد پر اسے جائز قرار دیا گیا۔

1989 کے حاجی سیف اللہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس میں سپریم کورٹ نے 1987 میں اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ہٹانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تاہم چونکہ فیصلہ سنائے جانے تک ایک نئی حکومت منتخب ہو چکی تھی، اس لیے عدالت نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے 1990 اور 1996 میں آئین کے آرٹیکل 58 (2بی) کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی معزولی کو برقرار رکھا۔

تاہم 1993 میں سپریم کورٹ نے تحلیل کے حکم کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف کو بحال کر دیا تھا۔

جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کا سبب بننے والی 1999 کی بغاوت میں بھی عدلیہ نے بھی ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت نقصان پہنچایا، بغاوت کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر بیٹھے ججوں میں سے ایک جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔

3 نومبر 2007 کو مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی کا اعلان کیا اور آئین کو معطل کر دیا تاہم پاکستان کی جرات مندانہ عدالتی فیصلوں میں سے ایک میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دو صفحات پر مشتمل متفقہ حکم نامہ جاری کیا، بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے۔

یہ فیصلہ سنانے والے ججوں کو اعلیٰ عدلیہ کے 50 سے زائد دیگر ارکان کے ساتھ فوجی حکمران نے معزول کر کے عارضی آئینی حکم (پی سی او) نافذ کر دیا تھا۔

چند روز بعد 24 نومبر کو نو تشکیل شدہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے نفاذ کو درست قرار دیا تھا، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی۔

31 جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 279 کے تحت پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کو اٹھائے گئے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں