اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ اس اکشاف کے ساتھ سامنے آیا کہ ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی میں 15 مارچ کو جمع کرائے جواب کے برعکس پارٹی کم از کم ان 2 ’غیر مجاز‘ بینک اکاؤنٹس کے چلائے جانے سے واقف تھی جس سے اس نے کمیشن کے سامنے لاتعلقی اختیار کی تھی۔
اسلام آباد کے محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر کو سنوائی کا موقع دیے بغیر عبوری حکم جاری نہیں کرسکتی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس سے اکبر ایس بابر کو خارج کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
پارٹی کے سیکریٹری اسد عمر نے بھی ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی اسٹیٹ بینک سے حاصل کردہ دستاویزات سمیت کیس کا تمام تر ریکارڈ درخواست گزار کو فراہم نہیں کیا جائے۔
جب جسٹس محسن اختر کیانی نے پٹیشن پر سماعت کی تو پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے دلیل دی کہ چونکہ الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ سے متعلق تمام تر ریکارڈ اسٹیٹ بینک اور دیگر ذرائع سے حاصل کیا ہے اس لیے اسے کس نجی فرد یعنی اکبر ایس بابر کو فراہم نہیں کیا جاسکتا۔
بعدازاں عدالت نے ای سی پی اور اکبر بابر کو نوٹسز جاری کردیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے پی ٹی آئی کے وکیل اسے استفسار کیا کہ کیا کوئی قانونی شق ای سی پی کو درخواست گزار کو معلومات فراہم کرنے سے روکتی ہے اور نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن نے اکبر بابر کو بلاوجہ وزن نہیں دیا اور اسکروٹنی کمیٹی نے رپورٹ خود حاصل کردہ ریکارڈ کی بنیادی پر تیار کی تھی۔
پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس سے واقف تھی جن سے لاتعلقی اختیار کی
دوسری جانب دستاویزات میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پارٹی اپنے کچھ رہنماؤں کی جانب سے ’غیر قانونی طور پر کھولے گئے اور چلائے جانے والے‘ بینک اکاؤنٹس سے واقف تھی۔
ای سی پی میں 15 مارچ کو جمع کرائے گئے اپنے تحریری جواب میں پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی کے ان نتائج کو چیلنج کیا تھا کہ پارٹی نے سال 2009 سے 2013 کے درمیان اپنے سالانہ آڈٹ میں متعدد اکاؤنٹس چھپائے تھے۔
پی ٹی آئی نے اپنے 11 اکاؤنٹس سے یہ کہہ کر لاتعلقی اختیار کرلی تھی وہ اس کے علم میں لائے بغیر کھولے گئے تھے اور جب اسے ان کی موجودگی کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر مذکورہ اکاؤنٹس سے اپنے آپ کو الگ کرلیا۔
تاہم دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا سینٹرل فنانس بورڈ ان میں سے کم از کم 2 اکاؤنٹس کی آپریٹنگ میں ملوث تھا۔
دستاویز کے مطابق سینٹرل فنانس بورڈ نے 2 دسمبر 2012 کو ایک قرار داد منظور کی تھی کہ پی ٹی آئی کا ایک نجی بینک کی پشاور کینٹ برانچ میں موجود اکاؤنٹ نئے دستخط کنندگان چلائیں گے۔
پارٹی کے سینٹرل فنانس سیکریٹری سردار اظہر طارق خان کے دستخط کے ساتھ اس فیصلے سے بینک کے مینیجر کو بھی مطلع کیا گیا تھا اور اکاؤنٹ کے سابق دستخط کنندگان شاہ فرمان، اسد قیصر اور عمران شہزاد کی جگہ نئے دستخط کنندگان نے لے لی تھی۔
اسی طرح سردار اظہر طارق کے دستخط کے ساتھ ایک اور خط میں پی ٹی آئی کے سینٹرل فنانس بورڈ کا اکاؤنٹ کے دستخط کندگان کی تبدیلی کے فیصلے سے پشاور میں ایک اور نجی بینک کو آگاہ کیا گیا۔
ڈان نے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کابینہ میں شامل شبلی فراز، فرخ حبیب اور پارٹی کے موجودہ سینٹر سیکریٹری فنانس سراج احمد سے ان کا مؤقف لینے کےلیے رابطہ کیا لیکن رپورٹ کے فائل ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا البتہ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں۔