سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ انسانی سوداگری کی روک تھام کے لیے علاقائی ، قومی اور عالمی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام آباد: سسٹینیبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) ، امریکی سفارت خانے اور پاکستان یو ایس ایلومنی نیٹ ورک (پی یو اے این) کے تعاون سے ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی جس میں شرکا نے افراد کی سودا گری کی روک تھام ، قانونی چارہ جوئی اور متاثرہ افراد کی بحالی سے متعلق اپنے مشترکہ خیالات، سفارشات اور تجاویز پیش کیں۔
سینیٹ کے رکن مشاہد حسین سید نے اختتامی تقریب سے خطاب کیا جہاں انہوں نے منشیات کی دہشت گردی کے ساتھ انسانی سودا گری (ٹی آئی پی) کی پیچیدگیوں کی وضاحت کی، جو کہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور یہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
سینیٹر نے علاقائی، قومی اور عالمی سطع پر شراکت داری کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ایس ایس ڈی او کے ساتھ اس اقدام میں تعاون کرنے پر امریکی سفارت خانے کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران مہمان خصوصی ، پاکستان میں امریکی سفیر جناب ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ انسانوں کی سودا گری صدیوں پرانا مسئلہ ہے جس کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے اور تعاون کے لئے جدید طریقے تخلیق کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مجرم سودا گری کے مقصد کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
تقریب کی مہمان خصوصی سندھ صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے کہا کہ انسانی سودا گری اپنی نوعیت کی ایک آفت ہے جس سے خاص طور پر خواتین اور بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ غربت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ امن و امان کا فقدان اور عدم توازن انسانوں کی سودا گری کو ایک آسان فعل بنا دیتا ہے۔
محترمہ رضا نے کہا کہ ان کی وزارت متاثرین کے لئے قانونی امداد اور بحالی کی فراہمی پر کام کر رہی ہے۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے انسانی سودا گری کے مسئلے کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے اور اسے مرکزی دھارے میں لانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ٹی آئی پی پر سالانہ رپورٹ میں 2015 سے اب تک پاکستان پانچ مرتبہ ٹیئر ٹو(درجہ دوم) واچ لسٹ ممالک میں شامل ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2022 کی امریکی رپورٹ میں پاکستان کو ٹیئر ٹو(درجہ دوم) سے نکالنے کی وجہ پاکستان میں انسانی سودا گری کی روک تھام سے متعلق ہونے والی قانون سازی ہے، خاص طور پر “انسانی سودا گری کی روک تھام ایکٹ 2018۔ اور حکومت اور شراکت داروں کا موثر کرداد ہے۔
امریکی سفارت خانے کے ارکان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، محترمہ ٹیریسا چانگ نے قانون سازی، آگاہی بڑھانے اور اس بین الاقوامی کانفرنس جیسے اقدامات کے ذریعے انسانی سودا گری سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن، اینڈریو شوفر نے ان سیشنز میں پیش کردہ معلومات کی افادیت کو سراہا۔ شرکاء نے پاکستان میں انسانی سوداگری سے نمٹنے کے لئے اپنے مشترکہ طور پر تیار کردہ خیالات اور سفارشات پیش کیں۔
ہیومن ٹریفکنگ ٹریننگ سینٹر امریکہ کے بانی ڈین نیش اور نیشنل چائلڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس امریکہ کے بانی کیون میٹکاف نے کانفرنس کے اختتامی دن اپنے گروپس کے مشترکہ طور پر تیار کردہ تنائج اور سفارشات پیش کیے۔
شرکاء کی جانب سے پیش کی جانے والی کچھ سفارشات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری عہدیداروں اور سول سوسائٹی جیسے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی اس حوالے سے معلومات میں اضافہ کرنا شامل تھا تاکہ وہ بہتر فیصلے کر سکیں ۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ ہر کوئی آگاہی پھیلانے اور ٹی آئی پی سے متعلق کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کا ذمہ دار ہے۔ سسٹینیبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن امریکی مشن کی مدد سے اس حوالے سے ایک منصوبے پر عمل درآمد کر رہی ہے، اور صلاحیت سازی، روابط کو مضبوط بنانے اور انسانی سودا گری کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ یہ کانفرنس اس مقصد کے لئے کیے جانے والے اقدامات میں سے ایک تھی جہاں شرکاء اور پینلسٹس نے یکساں طور پر پاکستان میں افراد کی سودا گری کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔