اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحٰق ڈار کے خلاف دائر آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس پر سماعت کی جہاں قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر افضل قریشی کے علاوہ مقدمے میں نامزد شریک ملزمان کے وکلا پیش ہوئے۔
احتساب عدالت نے شریک ملزمان نیشنل بینک کے سابق صدر سعید احمد، منصور رضا رضوی اور نعیم محمود کی بریت کی درخواست پر فیصلہ اسحٰق ڈار کی گرفتاری سے مشروط کردیا۔
عدالت نے کہا کہ جب تک اسحٰق ڈار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا ریفرنس کی کارروائی آگے نہیں بڑھے گی۔
شریک ملزمان نے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت ریفرنس دوبارہ چیلنج کر رکھا تھا۔
احتساب عدالت نے ریفرنس کی سماعت اسحٰق ڈار کی گرفتاری تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام پر ریفرنس دائر کردیا تھا جبکہ وہ لندن میں مقیم ہونے کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور انہیں عدالت نے مفرور قرار دے دیا تھا۔
آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی درخواست پر 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 3 اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔
اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔
اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی تھی، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس میں نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے نام پر یا ان پر انحصار کرنے والے افراد کے نام پر اثاثے اور مالی فوائد حاصل کر رکھے ہیں، جن کی مالیت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار روپے ہے۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے اثاثہ معلوم ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
بعد ازاں اس وقت کی حکومت نے اسحٰق ڈار سے خزانہ کی وزارت واپس لے لی تھی۔
عدالت نے 14 نومبر 2017 کو ریفرنس کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے بیٹے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
عدالت نے اسحٰق ڈار کو مذکورہ کیس میں ٹرائل میں پیش ہونے سے ناکامی پر 11 دسمبر 2017 کو مفرور قرار دے دیا تھا۔