تحریک انصاف حکومت کے اپنے دورے اقتدار کے چوتھے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام کا بل بالآخر سینیٹ میں پہنچ گیا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عین ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دیرینہ خواب کو اپنے دور حکومت میں ہی حقیقت بنتا نہیں دیکھ سکیں گے۔
یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہوچکا ہے جس کے مطابق اس منصوبے کا آغاز کیے جانے کے بعد اسے مکمل ہونے میں 72 ماہ لگیں گے۔
تاہم ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بل کو جلد از جلد سینیٹ سے منظور کرانے کی کوششیں کر رہی ہے تاکہ آئندہ موسم بہار کے سیشن میں داخلوں کے لیے یونیورسٹی کو کسی بھی کرائے کی عمارت میں فعال بنایا جا سکے۔
گزشتہ سال وزیراعظم آفس کی ہدایت پر ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے حکام نے جی فائیو میں سرسید میموریل سوسائٹی کی عمارت کا دورہ کیا تھا۔
ایچ ای سی اور سی ڈی اے نے بعد میں وزیر اعظم آفس کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ عمارت یونیورسٹی بنانے کے لیے موزوں ہے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کرائے پر حاصل کرنے کے لیے عمارت کے انتخاب کا حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی بل 2022 سینیٹ میں پیش کیا۔
چیئرمین محمد صادق سنجرانی نے غور کے لیے بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کو بھجوا دیا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اس بل کی منظوری دی تھی اور گزشتہ ماہ قومی اسمبلی نے اسے منی بجٹ اور کچھ دیگر بلز کے ساتھ منظور کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بناؤں گا، وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب
گزشتہ سال قومی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے ورکنگ پیپر کے مطابق یونیورسٹی کے 7 سینٹرز آف ایکسیلینس ہوں گے، جن میں سے 3 وزیراعظم ہاؤس میں ہوں گے اور 4 ’کُری‘ میں بنائے جائیں گے جہاں سرکاری زمین دستیاب ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے 6 سال درکار ہیں اور حکومت اس کے لیے 23 ارب روپے پہلے ہی مختص کر چکی ہے۔
یونیورسٹی کے چارٹر کی منظوری میں تین سال سے زائد تاخیر سے متعلق سوال پر وزارت تعلیم کے حکام نے بتایا کہ اس سے قبل وزارت تعلیم کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس منصوبے کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی دیکھ رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اس منصوبے کو وزارت تعلیم کو دے دیا گیا تھا۔
وزارت تعلیم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ منصوبہ ملنے کے بعد صرف ایک ماہ کے اندر ہم نے قومی اسمبلی سے بل کی منظوری حاصل کرلی تھی اور آج یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جلد یہ بل سینیٹ سے بھی منظور کرلیا جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں 141 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں سے 15 انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے لیے ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیاں فنڈز کی کمی کی شکایت کرتی رہی ہیں تاہم حکومت ایک اور سرکاری یونیورسٹی قائم کرنے پر بضد ہے۔
حال ہی میں سینیٹ کے اسٹینڈنگ آن ایجوکیشن کی ایک میٹنگ کے دوران بعض یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے کہا کہ انہیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی لیبارٹری کے لیے کیمیکلز خریدنے کے لیے بھی کوئی فنڈ نہیں ہے۔