مودی کی جماعت کا بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں اقتدار برقرار رہنے کا امکان

بھارت کی انتخابات اتھارٹی نے 5 ریاستوں میں انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع کردی 2024 کے انتخابات سے قبل یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک اہم امتحان ہیں، اتر پردیش کے غیر حتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کا اقتدار برقرار رہنے کا امکان ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے پی‘ اتر پردیش 23 کروڑ آبادی کے ساتھ بھارت کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

شمالی بھارت کی اس اہم ریاست کی سربراہی یوگی ادیتیاناتھ کر رہے ہیں، جو ایک پنڈت تھے، اور سیاستدان بننے پر انہیں مسلمان مخالف بیان بازی اور تشدد پر عروج حاصل ہوا۔

پانچوں ریاستوں میں آج شام تک نتائج کا اعلان ہونے کا امکان ہے، ان ریاستوں میں اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور، اور گوا شامل ہیں۔

یاد رہے بی جے پی نے وزیر اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں دو بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، جن کی قوم پرستی کی برانڈ نے انہیں بھارت کا نمایاں سیاستدان بنا دیا ہے۔

ان کی جماعت پہلے ہی پنجاب کے علاوہ 4 ریاستوں میں پہلے اپنے پنجے جما چکی ہے، پنجاب میں ایک ماہ قبل پولنگ کی گئی تھی۔

اتر کھنڈ، منی پور اور گوا کی ریاست میں مودی کی اپنی جماعت یا علاقائی اتحادیوں کا اقتدار میں آنے کا امکان ہے۔

امکان ہے کہ پنجاب میں کانگریس کو عام آدمی پارٹی سے شکست ہوسکتی ہے، یہ جماعت 2013 میں وجود میں آئی ان کا مقصد کرپشن ختم کرنا تھا، جس کے بعد مسلسل دو بار دہلی میں حکمرانی کی۔

2017 میں ہونے والے اتر پردیش کے انتخابات میں بی جے پی اور ان کے اتحادیوں زبردست کامیابی حاصل کی، اس الیکشن میں کامیابی مودی کی مقبولیت اور ہندو توا نظریے کی تقویت کا نتیجہ تھی، جس کے بعد نریندرا مودی دوسری بار وزیر اعظم بنے۔

بی جے پی پر کورونا وائرس کے سبب مشکلات کا شکار ہونے والی معیشت چلانے کا دباؤ سب سے زیادہ ہے، ووٹروں کی بے روزگاری ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔

انفیکشن میں تباہ کن اضافے کے بعد پہلے انتخابات بھی پہلے ہیں جس نے عوام میں جنم دیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ادیتیا ناتھ کی حکومت پر بدانتظامی کا الزام لگاتے ہیں۔

انتخابات سے قبل پارٹی نے ترقی کو فروغ دینے کا وعدہ کیا تھا اور فلاحی اقدامات کے ساتھ ووٹروں ووٹرز کی توجہ مرکوز کروائی تھی۔

تاہم ان کا بنیادی پیغام ان منصوبوں پر مشتمل تھا جو مذہب کو انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد بی جے پی کے ہندوتوا بنیادوں کو خوش کرنا تھا لیکن ووٹ کے نتائج سے متعلق غیر یقینی حالات ریاست کی اہم اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے متعدد انحراف کے ذریعہ پیدا ہوئی ہے۔

جس کی سیکولر اپیل نے مختلف ذاتوں کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کو بھی کھینچ لیا ہے۔

ایک اور سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا کسان، جو کہ ایک بااثر ووٹنگ بلاک ہے، بی جے پی کے پیچھے رہیں گے گے، بہت سے لوگ اب بھی زرعی قوانین کی پیروی پر نریندرا مودی سے ناراض ہیں جنہیں نومبر میں منسوخ کرنے سے قبل ایک سال طویل احتجاج کیا گیا تھا۔

مظاہرین کے اس غصے نے پنجاب کی ریاست میں انتخابات کے لیے لوگوں کے رویے کو ترتیب دیا، پنجاب کو بھارت کے لیے اناج کا پیالہ سمجھا جاتا ہے۔

بی جے پی کو پنجاب میں نسبتاً کم مقبولیت حاصل ہے لیکن اپنے نئے ووٹروں کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ یہاں مہم چلائی گئی تھی۔

پنجاب میں جہاں لوگوں کو اپنی ریاستوں کی مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے، مودی کی پارٹی کی ہندو قوم پرست رسائی کے لیے ایک امتحان ہے، جو 2014 سے شمالی بھارت کے بیشتر حصوں میں مقبول ہو رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں