حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف کی زیرصدارت پارٹی اجلاس میں ملکی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور ملک کو معاشی، آئینی بحرانوں سے نکالنے کے لیے کل حتمی فیصلوں کا اعلان ہوگا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ قائد نوازشریف کی زیرصدارت پارٹی قیادت کے اہم مشاورتی اجلاس کی پہلی نشست آج ہوئی جہاں موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین معاشی، آئینی اور انتظامی بحرانوں پر نوازشریف کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی ٹیم نے موجودہ معاشی حقائق سے نوازشریف کو آگاہ کیا اور بتایا کہ عوام کو مہنگائی کے مزید بوجھ سے بچانے کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کیاگیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں سابق حکومت کے پیدا کردہ سنگین بحران، لوڈشیڈنگ، تیل اور ایل این جی نہ منگوانے کی تفصیلات بیان کی گئیں، اجلاس نے مہنگائی، لوڈشیڈنگ سے عوام کو نجات دلانے اور ریلیف کی فراہمی سے متعلق مختلف سفارشات پر غور کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس نے حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا، حکومتی ٹیم نے معاشی حقائق کی روشنی میں مستقبل کے اقدامات کے بارے میں اپنی آرا پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس نے ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر بھی تفصیلی غوروخوض کیا اور 3 اپریل سے اب تک آئین شکنی کےاقدامات کا جائزہ لیا۔
وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اتفاق رائے پایاگیا کہ آئین شکن عناصر سے آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے اور آئین شکن عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے مختلف تجاویز پر مشاورت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی زیرصدارت حتمی فیصلوں کے لیے کل پھر اجلاس ہوگا، جس میں ملک اور عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی۔
مریم اورنگ زیب نے کہا کہ ملک کو معاشی، آئینی بحرانوں سے نکالنے کے لیے کل حتمی فیصلوں کا اعلان ہوگا اور تمام فیصلوں کا اعلان اتحادی جماعتوں کی تائید و حمایت سے کیا جائے گا۔
وزیراعظم کی لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف متعدد وفاقی وزرا کے ہمراہ لندن پہنچے جہاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کی۔
وزیراعظم شہباز شریف ایک ایسے موقع پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت تیز ہے، وزیراعظم کے ہمراہ لندن جانے والے وفد میں وزیردفاع خواجہ آصف، وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب، وزیر توانائی خرم دستگیر، وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل اور وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق شامل ہیں۔
وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں مذکورہ دورے کے حوالے سے تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا اپنے قائد سے ملاقات کے لیے نجی دورہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں مشاورت کا عمل جاری رہتا ہے، ہم وہ کام کریں گے جو پاکستان اور عوام کے حق میں بہتر ہو۔
دوسری جانب لندن میں نواز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہباز شریف کل یہاں پہنچیں گے، ہماری ملاقات ہوگی اور بڑے ضروری امور ہیں جن پر بات ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت ہر شعبے میں سر سے پاؤں تک بحران ہی پیدا کرتی رہی، چاہے وہ آئینی بحران ہوں چاہے وہ معاشی بحران ہوں، چاہے وہ سیاسی یا معاشرتی بحران ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ لندن پرپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سخت تنقید کی تھی اور جہلم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پوری کابینہ ایک کرپٹ اور سزایافتہ شخص سے ملنے کے لیے عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر جارہی ہے۔
نجی چینل کو ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف برٹس ایئرویز کی پرواز سے منگل کو رات گئے لندن کے لیے روانہ ہوئے اور امکان ہے کہ وہ 2 سے 3 دن لندن میں رہیں گے۔
وزیراعظم کے اس موقع پر دورہ لندن کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا کہ جب ملک ایک بحرانی کیفیت میں ہے تو ایسے میں یہ دورہ اتنا ضروری کیوں ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ملاقات میں قبل از وقت انتخابات، پی ٹی آئی سے مقابلے کی حکمت عملی اور اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے سمیت اہم فیصلے لیے جاسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نومبر 2019 میں صحت کی خرابی کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے 4 ہفتوں کی اجازت سے علاج کے لیے لندن گئے تھے، شہباز شریف نے علاج کے بعد واپسی کی ضمانت دی تھی تاہم نواز شریف کا لندن میں قیام علاج کے لیے مزید طویل ہوگیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے وزیراعظم شہباز شریف کی نواز شریف کے ساتھ ملاقات پر تنقید کی۔
سابق وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں سوال کیا کہ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کیسے ایک سزا یافتہ شخص سے ‘حکومتی اور ریاستی معاملات پر تبادلہ خیال کرسکتی ہے جبکہ پوری کابینہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت پابند ہے’۔
سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات حکومت کی حکمت عملی کے اجلاس سے زیادہ ‘تعزیتی اجلاس لگتی ہے’۔