پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما علیم خان اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے درمیان لندن میں ملاقات ہوئی جس میں وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے تیار ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے اہم ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ علیم خان اور نواز شریف کے درمیان ملاقات ان کی برطانیہ آمد کے فوراً بعد اسٹین ہاپ ہاؤس میں واقع شریف خاندان کے دفتر میں ہوئی۔
قبل ازیں اس ملاقات کے حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے باوجود عمران خان کو ہٹانے کے لیے ’تمام قانونی آپشنز‘ پر غور کررہی ہے۔
علیم خان کی لندن میں موجودگی نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے اہم رہنما جہانگیر خان ترین سے ملنے کے لیے آئے ہیں جو آکسفورڈ کے ہسپتال میں زیر علاج اور روبہ صحت ہیں۔
البتہ حکمران جماعت کے رہنماؤں کی ملاقات نہیں ہوئی جبکہ علیم خان نے باہمی روابط کے بعد نواز شریف سے ملاقات کی۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے علیم خان نے ملاقات سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ اگرچہ شہباز شریف نے لندن روانگی سے قبل علیم خان سے ملاقات نہیں کی تھی لیکن انہیں معلوم تھا کہ ملاقات ان کے بھائی سے ہونے والی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملاقات کے دوران علیم خان نے نواز سے نیب کے ہاتھوں سیاسی انتقام اور 2019 میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ان کی گرفتاری متعلق گفتگوکی۔
علیم خان کے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے امکان یا پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے عہدے فائز کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہر چیز پر تبادلہ خیال موجودہ سیاسی پیش رفت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے، کہ سیاست دان اپنے اختلافات کے باوجود ملاقات کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ علیم اور نواز شریف کے درمیان ملاقات اس بات کا اشارہ ہے کہ علیم خان کے ایم پی اے کے گروپ کا واحد سیاسی مستقبل مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے اور علیم خان نے لندن روانگی سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ سے بھی ملاقات بھی کی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ لندن میں نواز شریف اور علیم خان کی ملاقات میں اسحٰق ڈار موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں علیم خان کی ضرورت نہیں کہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم کو ہٹا دیں۔ ملاقاتیں خوش آئند ہیں لیکن اس وقت مسلم لیگ (ن) کی پوری توجہ عدم اعتماد پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں کیا ہوتا ہے ہم بعد میں دیکھیں گے۔