قومی اسمبلی میں گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کے معاملے پر صدر مملکت کی جانب سے ’غیر آئینی مؤقف اپنانے‘ پر ان کے خلاف اکثریت ووٹوں سے قرار داد منظور کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں غیر جانبدار انداز میں سر انجام دیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں یہ قرارداد قبائلی علاقے سے منتخب آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پڑھ کر سنائی جسے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور کو غوث بخش مہر کی جانب سے مزاحمت کے بعد منظور کرلیا گیا۔
جی ڈے اے اراکین نے اے غیر اسے غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ یہ صدر کے عہدے کو متنازع بنانے کی کوشش ہے۔
اس دوران فہمیدہ مرزا نے کورم مکمل نہ ہونے کے سبب ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش بھی کی، جیسا کہ انہوں نے پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا تھا۔
تاہم حکومت کی جانب سے قرار داد منظور کرنے پر زور دیا گیا۔
قبل ازیں پیر کو ہونے والے اجلاس میں قومی اسمبلی کے کورم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اراکین مذکورہ قرار داد منظور کروانے میں ناکام رہے تھے۔
تاہم، قرار داد منظور ہونے کے دوران جی ڈی اے کے اراکین ایوان میں موجود رہے اور جب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے قرار داد آئین اور قانون کے مطابق دینے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ووٹنگ کی تو دونوں اراکین ’مخالفت‘ میں چیختے رہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ’یہ ایوان صدر مملکت کے غیر آئینی مؤقف پر سخت اعتراض کرتا ہے،انہوں نے آئین کو حرف بہ حرف اور اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور پارلیمانی روایت پر عمل پیرا ہونےسے انکار کیا ہے۔
محسن داوڈ نے کہا کہ’ یہ ایوان صدر سے مطالبہ کرتا ہے کہ غیر جانبدارانہ انداز اختیار کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 48 کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیں‘۔
قرارداد میں صدر عارف علوی کو شہباز شریف کی جانب سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے برطرف کرنے کے لیے بھیجی ہوئی سمری مسترد کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ’ یہ ایوان واضح کرتا ہے کہ آئین کے تحت آئین اور قانون کی پاسداری ہر شہری چاہے وہ کہی بھی ہو، اور اس شخص کےلیے ناقابل تسخیر ذمہ داری ہے جو پاکستان میں موجود ہے۔
مزید کہا گیا کہ’ صدر کے حلف کے مطابق صدر اپنے ذاتی مفاد کو اپنی سرکاری ذمہ داری اور سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا، وہ آئین کا دفاع اور اس کی حفاظت برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔
قبل ازیں قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے غوث بخش مہر نے آئین کے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے مشورے پر فیصلہ کرنا صدر کی صوابدید ہے، ان کا خیال تھا کہ آئین میں گورنر کو برطرف کرنے کا کوئی طریقہ کار شامل نہیں ہے، لہٰذا صدر نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کی سمری مسترد کرتے ہوئے ایک جائز عمل سر انجام دیا ہے۔
فہمیدہ مرزا نے پیر کو یہ اعلان کیا تھا کہ اگر اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر نامزد نہیں کیا تو وہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گی، ایوان میں موجود رہیں۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے سپریم کورٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ’ میرے خیال میں کوئی ادارہ اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کرسکتا ہے۔
ایوان کی کارروائی کےدوران اسپیکر قومی اسمبلی نے فہمیدہ مرزا کوئی کئی بار بات کرنے کا موقع دیا، انہوں تحریک انصاف منحرف اراکین کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ان کے عمل کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔
تاہم سابق اسپیکر کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے لیے لفظ ’لوٹا‘ استعمال کرنے پر راجا ریاض اور جویریہ ظفر کی جانب سے غصے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی اراکین نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہیں سےبڑا ’لوٹا‘ قرار دیا اور کہا کہ جب انہیں اپوزیشن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تو وہ پارلیمنٹ سے بھاگے ہوئے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا غوث بخش مہر نے آئین کے آٹیکل 48 کی غلط تشریخ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی آئی کے آرٹیکل 48 کی تشریح کر چکا ہے، صدر کی خواہش کا مطلب، وفاقی حکومت یا وزیر اعظم کی خواہش ہے ۔