پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 27 مارچ کو جلسے میں لہرائے گئے خط کو جعلی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ خط کی ڈرافٹنگ دفترخارجہ میں بیٹھ کر کی گئی۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نائب صدر پاکستان مسلم لیگ(ن) مریم نواز نے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے پروپیگنڈا اور جھوٹ کا بازار گرم ہے جس کا پول ابھی کھل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں جب ختم ہوتی ہیں تو اپنی کارکردگی اور منصوبوں کا بتاتی ہیں اور اسی کارکردگی کی بنیا د پر اگلے انتخابات میں جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے منصوبوں پر عمران خان آج بھی اپنی جعلی تختیاں لگاتا ہے لیکن ہم جب انتخابات میں گئے تھے تو ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اپنی کارکردگی اور اپنے منصوبے لے کر آتی بجائے اس کے ایک جعلی خط لے کر آئی جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
‘مندرجات اور کردار بتائے گئے خط کیوں نہیں دکھایا گیا’
مریم نواز نے کہا کہ سوال کرنا چاہتی ہوں وہ خط جس کو چھپا کر پتہ نہیں کس دراز میں رکھا ہوا ہے، اس خط کے سارے مندرجات تو بتا چکے ہیں، آپ نے یہ بھی بتایا دیا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور تمام 197 ارکان سازش میں شامل ہیں اور ان ممالک کے نام بھی لے دیے جو آپ کے خیال میں سازش میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے سب کچھ بتادیا کہ سازش کہاں بیٹھ کر ہوئی تو آپ نے خط کیوں نہیں دکھایا، خط اس لیے نہیں دکھایا کیونکہ وہ خط سرے سے تھا ہی نہیں اور جو جلسے میں دکھایا تھا وہ خالی کاغذ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ خط تھا اور کوئی سازش تھی تو اس کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھنا چاہیے تھا اور پاکستانی قوم کو وہ خط دکھانا چاہیے تھا۔
‘عمران خان نے کرسی سے چمٹےرہنے کے لیے پاکستان کا تماشہ بنایا’
انہوں نے کہا کہ عمران خان چند دن کرسی سے چمٹے رہنے کے لیے پوری آئین پر خود کش حملہ کرسکتا ہے، پاکستان کا تمسخر اور تماشا بنا سکتا ہے اور آئین کو توڑ سکتا ہے اور وہ شخص یہ کہے کہ میں وہ خط اس لیے نہیں دکھا سکتا کیونکہ قومی سلامتی کا مسئلہ تھا تو اس بات پر ہنسی آتی ہے، آئین توڑنا آسان ہے لیکن خط دکھانا مشکل ہے۔
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ خط میں نہ کوئی ایسی بات تھی اور نہ ذکر تھا، وزارت خارجہ میں بیٹھ کر یہ خط تیار کیا گیا، جس کو یہ کیبل یا مراسلے کا نام دیتے ہیں، وزارت خارجہ میں بیٹھ کر تمام سیاسی نوک پلک درست کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ان کو پتہ تھا کہ جب خط عوام یا قوم کے سامنے آئے گا یا میڈیا کے سامنے آئے گا تو پول کھل جائیں گے کیونکہ حکومت ایسی چیز نہیں ہے کہ وزیراعظم جھوٹ بول دے اور جھوٹ چل جائے، حکومت کے اندر بہت سے اور ادارے اور اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور ان کے سامنے یہ خط رکھتے جو کہ آپ نے نہیں رکھا تو آپ کے خط کا تیہ پانچہ فوراً ہوجاتا۔
‘خط کے ڈرامے کا پول جلدی کھلنے والا ہے’
ان کا کہنا تھا کہ پھر وزارت خارجہ میں بیٹھ کر اس خط کی ڈرافٹنگ کی اور جس وقت یہ خط کا ڈراما کرنا تھا اس سے ایک دن پہلے آپ نے امریکا میں پاکستانی سفیر یا ہائی کمشنرکو راتوں رات برسلز اسمگل کروایا۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ آپ کو پتہ تھا خط کا ڈراما سامنے آیا اور وہ سفیر اس ملک میں موجود ہوگا تو ان سے سوال ہوں گے، وہ سفیر آج کہاں ہیں، اس خط کے مرکزی کردار کہاں ہیں، اگر اتنی سچی بات تھی تو ان کو میڈیا اور سپریم کورٹ میں پیش کریں اور بتائیں کہ کیا سازش ہوئی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ خط نہ تھا اور نہ ہے یہ ایک ڈراما تھا جس کا پول اب کھل بھی رہا ہے اور بہت جلدی کھلنے والا ہے۔
‘قومی سلامتی کمیٹی ہے عمران بچاؤ کمیٹی نہیں’
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اس کے اعلامیے کا غلط استعمال کیا، جب اعلامیے میں کہیں ذکر نہیں کہ کوئی سازش ہوئی یا کوئی اس میں حصہ دار ہے تو ایک قومی فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کمیٹی جو پاکستان کے قومی مسائل اور سلامتی خطرات کے لیے بنی ہے اس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ قومی سلامتی کمیٹی ہے عمران بچاؤ کمیٹی نہیں ہے، آپ نے اس کو بھی استعمال کیا۔
وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ یہ تاثر دیا کہ ادارے آپ کے ساتھ شامل ہیں جبکہ آپ کے اس جھوٹ کے ساتھ کوئی شامل نہیں ہے۔
‘ملیٹری اسٹبلشمنٹ قوم کو وضاحت دے’
انہوں نے کہا کہ ملیٹری اور سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ آئیے اور اس بات پر قوم کو وضاحت دیں، یہ ایک سیاسی بات تھی اور ایک سیاسی جھوٹ تھا، اس میں جو سچائی ہے وہ قوم کے سامنے رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کو آپ بین الاقوامی سازش کہہ رہے ہیں، اس کے ثبوت میں آپ کیا لے کر آئے وہ تصویریں جس میں ہم سفارت کار سے مل رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی غیرملکی سفارت کاروں سے ملاقاتوں کی تصاویر دکھاتےہوئے انہوں نے کہا کہ اگراس کو سازش کہتے ہیں تو پھر یہ کیا ہے، کیا یہ پاکستان کے خلاف سازش ہو رہی ہے کیونکہ یہ تصاویر اس وقت کی ہیں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے۔
‘عمران خان کی حکومت میں قرض 50 ہزار ارب ہوگیا’
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ قرضہ 25 ہزار ارب سے 50 ہزار ارب آپ کے دور میں ہوا تو آپ کے خلاف یہ سازش کس ملک نے کی۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر جب 97 سے 185 سے اوپر گیا تو یہ سازش کس ملک نے کی، چینی کی قیمت 50 سے 120 روپے کلو تک گئی، گھی قیمت 120 روپے سے 500 روپے کلو تک گئی، آٹے کی قیمت 35 روپے سے 85 اور 90 روپے تک گئی، کھاد کی بوری 3500 روپے سے 7 ہزار روپے ہوگئی تو آپ کے خلاف یہ سازش کس ملک نے کی۔
مریم نواز نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ اپنی بدترین کارکردگی کے بعد ایک خط دکھا کر چپ کے سے نکل جائیں گے، آپ کے خلاف مہنگائی پر عوام کے دلوں میں طوفان تھا وہ اس ڈرامے سے ختم ہوجائے گا اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قوم کو ایک بیانیہ دیا ہے تو قوم آپ کی مہنگائی بھول جائیں گے تو جب وہ چینی، آٹا اور دیگر چیزیں خریدنے جائیں گے تو آپ کو بددعائیں دیتےہوئے باہر نکلیں گے۔
‘کرپشن اسکینڈلز پر گرفتاری سے بچنے کیلئے اسمبلی توڑ دی’
انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے بھی انہوں نے گھر جانا تھا اور اسمبلی تحلیل کرکے بھی انہوں نے گھر جانا تھا لیکن اسمبلی توڑنے اس لیے گئے کیونکہ انہیں پتہ تھا اپوزیشن سے کوئی جماعت اگر ایک مہینے کے لیے بھی آگئی تو وہ مجھے نہیں چھوڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف کرپشن کے اتنے بڑے بڑے اسکینڈلز ہیں کہ یہ ایک دن بھی حکومت سے باہر رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کا آئین 4 آمروں نے اس بدترین طریقے سے نہیں توڑا، جس بے شرمی سے آئین پاکستان پر حملہ عمران خان نے کیا، صرف اس لیے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آئین شکنی کا کیس ہے، آج درخواست گزار نہ اپوزیشن اور نہ ہی اے پی ڈیم ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ہے بلکہ آج سپریم کورٹ میں درخواست گزار آئین پاکستان ہے، جس پر عمران خان نے اپنی چند دنوں کی حکومت بچانے کے خود کش حملہ کیا ہے۔
‘اسپیکر کے حکم کو پارلیمنٹ کی کارروائی کہہ کر نہیں چھپا سکتے’
قومی اسمبلی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نہیں تھی بلکہ وہ رولنگ کہہ رہی تھی کہ میں آئین کو نہیں مانتا، اسپیکر آئین کے تابع ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسپیکر آئین کے برخلاف حکم دے تو کیا اس کوکہیں چھپنے کی اجازت ہوگی، اس کو استثنیٰ ملے گا اور کیا اس کو پارلیمان کی کارروائی قرار دے کر چھپایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آج اسپیکر آئین کے خلاف حکم دیتا ہے تو آپ اس کو پارلیمنٹ کی کارروائی کہہ کر اس کے اندر نہیں چھپا سکتے، وہ ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزا آئین میں ہے اور وہ آرٹیکل 6 ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ یا تو پھر وہ اپوزیشن کے 200 ارکان غدار ہیں اور جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ 80 فیصد پاکستان ہے، تو پھر یا تو 80 یا 90 فیصد پاکستان غدار ہے یا عمران خان غدار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ بچوں کے کھیلتے کھیلتے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا جس کو دوبارہ لگادیں گے، یہاں پر پاکستان کا آئین ٹوٹا ہے، اس کی سزا آئین پاکستان نے طے کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جتنے بھی ادارے اور سیاسی جماعتیں آئین سے جنم لیتی ہیں اور اس آئین کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اگر اس کو مثال بنایا اور عمران خان کو سزا نہیں دی گئی تو کل کو کوئی بھی اس کو روندتےہوئے نکل جائے گا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
‘اسد قیصر اور قاسم سوری بھی مجرم ہیں’
نائب صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ اگر نیکی کا کام کر رہے تھے رولنگ ڈپٹی اسپیکر پڑھ رہا ہے اور جلدی جلدی میں نام اسد قیصر کا کیوں لے رہا تھا، اسد قیصر جانتے تھے، آئے نہیں، ڈپٹی اسپیکر بھی ہوشیار ہیں انہوں نے اسدقیصر کا نام لے لیا۔
انہوں نے کہ اسد قیصر اور قاسم سوری بھی مجرم ہیں لیکن سب سے بڑا مجرم عمران خان ہیں، جس نے وہ پرچی لکھ کر دی تھی، جس کے ذریعے آئین پاکستان پر حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آج پارلیمنٹ میں اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کہے کہ میں آئین کو نہیں مانتاہوں تو اس کو پارلیمنٹ کی کارروائی قرار دے کر تحفظ دیا جائے گا اور آنکھیں بند کردی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کی سفارش نہیں بھیجی گئی بلکہ ان کو پاکستان کا آئین توڑنے کی سفارش بھیجی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی دن اپنی حکومت جانے کا ماتم کر رہے ہوتے ہیں اور احتجاج کی کال دیتے ہیں اور کسی دن جشن منارہے ہوتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن آپ کو بخشے گی نہیں، اگر آپ کو سزا نہ ملی تو یہ سزا آپ کو پاکستان کےعوام دیں گے، ایک تو ان پر مہنگائی اور لاقانونی کی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور پھر وہ آپ کو پاکستان کا آئین توڑنے والے شخص کے طور پر یاد رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئین توڑنے کا اپنے ماتھے پر لیبل لگایا ہے، پہلے نالائقی اور نااہلی کا بڑا لیبل لگ چکا تھا، آخری گیند پر لڑنے والی کی اصلیت یہ ہے کہ اپوزیشن اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لے آئی تو وہاں سے بھاگ گئے اور اسمبلی توڑ دی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے ڈر سے بھاگ گیا اور جب پنجاب اسمبلی میں اکثریت کھو چکا تو اس کا اجلاس ہی نہیں بلا رہا ہے اور ووٹنگ ہی نہیں ہونے دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وکٹس اٹھا کر بھاگا، وکٹس اٹھا کر نہیں بھاگا بلکہ میچ میدان چھوڑ کر دم دبا کر بھاگا ہے۔
‘ڈھٹائی سے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہے’
مریم نواز کا کہنا تھا کہ آج آپ کی حکومت ختم ہوچکی ہے لیکن ڈھٹائی سے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں، ڈھٹائی سے پی ٹی وی کے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے وسائل پر بیٹھ کر اپنی سیاست چمکانے اور ایک ایک پائی کا حساب آپ کو دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھی الیکشن سے بھاگنے والے نہیں ہیں، جب ریاستی وسائل کے بغیر عوام میں اترو گے تو دیکھو گے کہ عوام کس طرح انڈے اور ٹماٹروں سے استقبال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ مضبوط اور برقرار ہے اور گزشتہ برسوں میں ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن میں ضرور جائیں گے لیکن پہلے پاکستان کا آئین توڑنے والے کا فیصلہ ہوگا پھر ہم الیکشن میں جائیں گے اور عمران خان کو تاریخی شکست دیں گے۔
‘فرح بنی گالا کی فرنٹ پرسن ہیں’
انہوں نے کہا کہ بنی گالا کی فرنٹ پرسن فرح کچھ نہیں تھی، بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں تھے، فرح وزیراعلیٰ تھی اور اس کے تمام کنکشنز بنی گالا سے ملتے تھے۔
مریم نواز نے کہا کہ قوم کے سامنے اب یہ سب راز آنے والے ہیں اور انہی سے بچنے کے لیے یہ اسمبلی توڑ کر انتخابات میں جانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ راتوں رات برقعہ پہن کر فرح کو پولیس کے حصار میں فرار کروایا، وہ تصاویر تو سب نے دیکھ لی ہوں گی جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 3،3 کروڑ کا بیگ پکڑا ہوا ہے وہ کہاں سے آیا ہے، کوئی ٹرانسفر، کوئی تعیناتی یا تو جادو ٹونے سے ہوتی تھی یا تو فرح کو کروڑوں روپیہ رشوت دے کر ہوتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ فرح کو رشوت دیے بغیر پنجاب میں کوئی ایس ایچ او تعینات نہیں ہوتا تھا، اگر ان باتوں میں سچائی نہیں ہے تو وہ راتوں رات کیوں فرار ہوگئی۔
سب کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فرح سے کہنا چاہتی ہوں کہ آپ جیسے لوگ جن کے ثبوت کے انبار ہیں اور آپ جیسے لوگوں کے لیے انٹرپول کی سہولت موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب آپ بھاگ نہیں سکتے، آپ کے پیچھے کون تھا اور کس کی فرنٹ پرسن تھی اب سب آئے گا، پورے پنجاب میں نام کی کوئی سڑک نہیں بنی لیکن فرح کا گاؤں دیکھیں وہاں سڑکیں بھی بنی ہیں اور ہر چیز ہوئی ہے۔