امریکی انقلاب کے بانی اور امریکا کے ہی دوسرے صدر جان ایڈمز کا مشہور قول ہے کہ
یاد رکھیں جمہوریت کبھی زیادہ دیر نہیں چلتی۔ یہ جلد ہی ختم ہوجاتی ہے، خود کو قتل کردیتی ہے اور ابھی تک کوئی جمہوریت ایسی نہیں رہی جس نے خودکشی نہ کی ہو۔
جب جمہور کو صرف سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جائے، ہدف صرف حکمرانی اور طاقت کا حصول ہو، اور جمہوری نظام کی آڑ میں پاور پالیٹکس، ذاتی اور جماعتی مفاد کو ترجیح دی جائے تو اسے جمہوریت کی خودکشی ہی کہتے ہیں۔
پاکستان میں جب، جب جمہوری نظام آیا ہے، ہمیشہ زلزلوں کی زد میں ہی رہا اور اسی وجہ سے آج تک اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوسکی ہیں۔
172 کا ہندسہ اپنے حق میں کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایسا ‘لوٹ سیل’ میلہ لگا کہ جس کی نظیر ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں چاندی ہوئی حکومتی اتحادیوں کی۔ اگرچہ حکومت کے منحرف اراکین کی تعداد ہی اتنی تھی کہ اپوزیشن باآسانی پارلیمان کے اندر اپنی اکثریت ثابت کرسکتی تھی مگر اتحادیوں پر ’انویسٹ’ کرنے کی وجہ صرف اور صرف تحریک عدم اعتماد کو مزید مضبوط کرنا تھا۔
لہٰذا ساری نظریں مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پر مرکوز ہوگئیں۔ صبح اگر اپوزیشن جماعتیں ان اتحادیوں سے ملتیں تو شام میں حکومتی وفد ان کی رہائش گاہ پر نظر آتا تھا۔ اس کھیل کی اہمیت تو دیکھیے کہ مسلم لیگ (ن) کو 14 سال بعد (ق) لیگ سے ہاتھ ملانے ان کے گھر اور وزیرِاعظم پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد جانا پڑا۔
3 ہفتے ایسا سسپنس رہا کہ جب اتحادی حکومتی اراکین کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کرتے تو ہمیں لگتا کہ ان کے آپس میں معاملات طے پاگئے ہیں اور جب اپوزیشن کی جماعتیں ان اتحادیوں کے ساتھ مل کر میڈیا ٹاک کرتیں تو ایسا لگتا کہ اتحادی اپوزیشن کیمپس میں جانے کو تیار ہیں۔
دن گزرتے رہے اور دلکش آفرز کی آنچ پر حلوہ پکتا رہا اور پھر وقت آیا اس حلوے کو کھانے کا۔ لیکن سیاست کے سب سے سینئر اور منجھے ہوئے چوہدریوں نے اس حلوے کو گرم گرم کھانے کی کوشش کی اور اپنی زبان جلا بیٹھے۔ ایم کیو ایم نے اس حلوے کو ٹھنڈا کرکے کھایا اور سارا میلہ لوٹ لیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کے مطابق (ق) لیگ کے ساتھ وزارتِ اعلی پر ڈیل ڈن ہوچکی تھی اور مبارکبادیں لندن تک پہنچائی جاچکی تھیں مگر اگلے دن اپنے برخوردار کی کال پر چوہدری پرویز الہی وزارتِ اعلیٰ کا پروانہ بنی گالہ سے ’ریسیو’ کرنے پہنچ گئے۔ دراصل چوہدری صاحب 172 کے گورکھ دھندے کو نہ سمجھ سکے اور فوراً اس آفر کو قبول کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر یہ فیصلہ ہو بھی گیا تھا تو اس کو ٹاپ سیکرٹ رکھا جاتا، نہ کہ اسے حکومتی اراکین کی جانب سے بڑی کامیابی سمجھ کر فوراً سے ٹویٹ کردیا جاتا۔
چوہدری پرویز الہٰی کی طرف سے اس بریکنگ نیوز نے اپوزیشن جماعتوں کے کان فوراً کھڑے کیے اور فوری طور پر ’ڈیمج’ کنٹرول کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھا۔ اگرچہ اس حکومتی اتحادی کے ساتھ معاملات کچھ دن پہلے ہی طے پا چکے تھے مگر علی الاعلان اسی وجہ سے نہ بتایا گیا کہ اپنے پتے دکھانے کا مطلب حکومت کو الرٹ کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہی وہ کام تھا جو اگر حکومت پرویز الہٰی کے معاملے میں کرتی تو آج صورتحال شاید کچھ اور ہوتی۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کے حکومتی صفوں میں جانے کے اعلان کے بعد زرداری صاحب جو پہلے ایم کیو ایم سے معاہدے کی بیشتر شقوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے تھے، انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات پر ’اوکے’ کا ٹھپہ لگایا اور رات کے بابرکت لمحات میں ‘ڈیل ڈن’ کرلی۔
ایم کیو ایم کی اپوزیشن صفوں میں جانے کی دیر تھی کہ 172 کی گیم واضح ہوگئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن پارلیمان کے اندر اپنی گنتی پوری کرکے ووٹنگ کروانے پر زور دے رہی ہے اور حکومت اتوار تک کسی معجزے کے انتظار میں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری رسہ کشی میں کس جماعت نے زور سہی سمت میں لگایا ہے؟
پاکستان مسلم لیگ (ن) جو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے، وہ مسلم لیگ (ق) کو پنجاب کی وزارتِ اعلی کی آفر دے کر ایک کڑوی گولی نگلنے ہی والی تھی لیکن قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور چوہدری پرویز الہٰی نے خود ہی ان کی مشکل آسان کردی اور یہ کڑوی گولی ان کے منہ سے نکال باہر پھینکی۔ اب بظاہر ان کے لیے پنجاب کا گراؤنڈ ہوم گراؤنڈ ثابت ہو رہا ہے۔ جن اہداف کو لے کر (ن) لیگ تحریک عدم اعتماد کے لیے راضی ہوئی تھی وہ اہداف تادمِ تحریر ان کو پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) جو اس ساری ڈیل میں ہاٹ فیورٹ نظر آرہی تھی، جس کی بولی سب سے زیادہ لگ رہی تھی، اب وزارتِ اعلیٰ کی حکومتی آفر قبول کرنے کے باوجود بھی اس کرسی سے دُور نظر آرہی ہے اور انہیں عثمان بزدار کی جگہ لینے کے لیے ابھی بہت سے دریا عبور کرنے ہوں گے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کا اپوزیشن سے اتحاد کا فیصلہ بھی نمبر گیم کو ریڈ کرنے کے بعد کیا گیا جس کا فائدہ ان کو بلوچستان میں ‘لائن شیئر’ کے طور پر ہوگا۔
آصف علی زرداری کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی اس سارے سیاسی کھیل کی کنگ میکر ہے اور اس کی سب سے بڑی کامیابی ہی اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود ہونے والی جماعت قرار دیا جارہا تھا اور یہ تجزیہ کیا جاتا تھا کہ وفاق میں جگہ بنانے کے لیے ان کو لمبا صبر کرنا پڑے گا، مگر آنے والے دنوں میں وفاقی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی بننے جارہی ہے۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کم وقت میں جتنا فاصلہ طے کرے گی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) جو قومی اسمبلی میں 14 نشستوں کے ساتھ بیٹھی ہے اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت کے خلاف ثابت قدمی نے گزشتہ ساڑھے 3 سال سے ان کو سیاسی طور پر زندہ رکھا۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں فاتح بن کر پہلا فائدہ تو وہ حاصل کرچکے ہیں اور عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ان کے لیے بھی اہم عہدوں پر پہنچنا بہت آسان لگ رہا ہے۔ پھر ان عہدوں کو وہ مستقبل میں اپنی جماعت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان نے اس ساری صورتحال میں اپنے کارڈز بہت ہوشیاری سے کھیلے ہیں۔ حکومت میں 2 اہم وزارتوں کے بعد 2 مزید وزارتوں کی پیشکش کو انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ٹھکرایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ چاروں وزارتیں ایم کیو ایم پاکستان کو پارٹی سطح پر کوئی خاص فائدہ دینے والی نہیں تھیں۔ اگلے ڈیڑھ سال وہ وزارتوں کے مزے لوٹ بھی لیتے تو شہری سندھ کا ووٹ اپنے حق میں کرنے کے لیے ان کو یہ وزارتیں خاص فائدہ دینے والی نہیں تھیں۔ لہٰذا انہوں نے زمینی حقائق کو سامنے رکھا، پیپلزپارٹی سے ایسے مطالبات منوا لیے جن سے فوراً تو جھنڈے والی گاڑی ان کو نہیں مل سکے گی مگر ان معاہدوں کی اگر پاسداری کی گئی تو متحدہ کو طویل المدتی بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ان کی پارٹی جو اگست 2016 کے بعد سکڑ رہی تھی اس میں ایک نئی جان پڑے گی۔
آخر میں سب سے اہم اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو حکومت نے پہلے دن سے ہی مس ریڈ کیا۔ ابتدا میں تو حکومت اتنی پُراعتماد تھی کہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھان متی کا کنبہ کہتے رہے اور اس حوالے سے اپنا ہوم ورک تک شروع نہیں کیا۔
جب حکومتی اتحادیوں کی اپوزیشن سے ملاقاتیں شروع ہوئیں اور ’نیوٹرل‘ ہونے کے واضح اشارے ملنا شروع ہوئے تو حکومت تھوڑی بہت پریشان ضرور ہوئی مگر پھر بھی ’کیلکولیٹڈ’ پالیسی نظر نہ آئی۔ اتحادیوں سے وزیرِاعظم کی ملاقاتیں ایک فلم کے ’انٹروَل’ کے برابر وقت سے زیادہ نہ تھیں۔
جب منحرف اراکین منظرِ عام پر آئے تو انہیں منانے اور ان کے تحفظات دُور کرنے کے بجائے شہباز گِل گالم گلوچ کی گٹھڑی اٹھائے ان اراکین پر پھینکتے نظر آنے لگے۔ ایسی زبان اور ایسے رویے کے بعد جو تھوڑی بہت لچک ان منحرف ارکان میں تھی، وہ بھی ختم ہوگئی اور وہ اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے اور 12 منحرف اراکین سے شروع ہونے والی گنتی آخری اطلاعات تک 22 تک پہنچ چکی ہے۔
اس کے بعد وزیرِاعظم عمران خان صاحب اس امید کے ساتھ ایک ‘ٹرمپ کارڈ’ اپنی جیب میں رکھے امر باالمعروف کے جلسے کی طرف بڑھے کہ یہ سرپرائز ان کو سیاسی طور پر ایسا فائدہ دے گا کہ ساری گیم ہی پلٹ جائے گی۔ پونے 2 گھنٹے کی تقریر کے آخری 20 منٹ میں یہ عقدہ کھلا کہ وزیرِاعظم کی جیب میں پڑا ٹرمپ کارڈ دراصل بیرونی سازش کی تحریروں میں لپٹا ایک خط ہے۔
یہ دن تحریک عدم اعتماد کے میچ کے آخری اوورز کے دن تھے جب اپوزیشن جماعتیں اپنے نمبرز پورے کرنے پر زور لگا رہی تھیں اور عمران خان صاحب اپنا سارا تکیہ اس خط پر کرکے بیٹھے تھے۔ یہ خط جلسے میں تو نہ کھل سکا مگر اگلے 2 دن میں اس کے مندرجات قوم کے سامنے رکھ دیے گئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایک پلڑے میں اپوزیشن 172 سے زائد اراکین ڈال کر تحریک عدم اعتماد کا وزن اپنی طرف جھکا چکی ہے مگر وزیرِاعظم عمران خان دوسرے پلڑے میں اس خط کا وزن ڈال کر سارا ترازو ہی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ وزیرِاعظم نیوٹرل رہنے والے اداروں کو اس سازش کا احساس دلا رہے ہیں، ساتھ ان تمام اتحادیوں کو جو ان کے ساتھ نہیں رہے اس خط کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غداروں کے ساتھ جانے کی غلطی نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بنی گالہ اور وزیرِاعظم ہاؤس کے دروازے کھولے اپنے ناراض اراکین کا انتظار فرما رہے ہیں کہ شاید اس خط کی حقیقت جان کر صبح کا بھولا شام کر گھر آجائے۔
قوم سے خطاب کا اختتام بھی اسی بات پر کیا کہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ ہے اور عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نیکی کے ساتھ کھڑے ہیں یا بُرائی کے ساتھ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیرِاعظم کے تاخیر سے شروع کیے جانے والے ہوم ورک اور سازشی خط کی وجہ سے آنے والی خود اعتمادی نے ان کو تحریک عدم اعتماد سے متعلق جامع حکمتِ عملی اپنانے سے روکے رکھا اور دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے اپنا فوکس 172 کا نمبر پورا کرنے پر رکھا۔ اب اتوار کو گنتی کا دن ہے اور صورتحال یہ ہے کہ کوئی معجزہ ہی خان صاحب کی حکومت کو بچا سکتا ہے۔
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ آنے والے انتخابات کی تیاری اور نئے بیانیے کا پرچار ہی عمران خان صاحب کے لیے آخری اور بہتر آپشن رہ گیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں جمہوریت اور جمہور پر فوکس کرنے کے بجائے حکمرانی اور طاقت کے حصول کو اپنا پہلا ہدف بنائے نظر آرہے ہیں۔ خزاں کو بھیجنے پر تو فوکس ہے مگر بہار لانے کے لیے کوئی ہوم ورک نظر نہیں آرہا۔
اگر جمہوری نظام میں ترجیحات یہی رہیں تو ہر دفعہ جان ایڈمز کی بات درست ثابت ہوتی رہے گی کہ
جمہوریت خود اپنا قتل کرتی ہے
جمہوریت خودکشی کرتی ہے
وقاص علی چوہدری سال 2008 سے وفاقی دارالحکومت میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں اور آج کل ڈان نیوز کے پروگرام ’ان فوکس‘ میں بطور اینکرپرسن ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ٹویٹر پر waqasali012@ پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔