آزاد جموں و کشمیر کابینہ کے اراکین اور پارلیمانی سیکریٹریز کے اجلاس میں وفاق کی جانب سے خطے کی بجٹ گرانٹس میں کٹوتی کے باعث 23-2022کا بجٹ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی زیر صدارت اجلاس میں 16 میں سے 13 وزرا، 4 میں سے 3 مشیروں اور معاونین خصوصی اور 5 میں سے 3 پارلیمانی سیکریٹریز نے شرکت کی۔
قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری انوار الحق بھی اس موقع پر موجود تھے جو ان دنوں آزاد کشمیر کے قائم مقام صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اجلاس میں بجٹ میں کٹوتی کے معاملے پر اسمبلی کے اندر اور باہر موجود اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے لیے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔
الیکٹرانک، پرنٹ اور اور سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے مزید 2 کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔
ایک سرکاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم سردار تنویز الیاس نے افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر بجٹ میں کٹوتی کر رہی ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔
اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ’آزاد جموں کشمیر نہ صرف کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ ہے بلکہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جارحیت کے پیش نظر علاقائی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے، یہ بجٹ میں کٹوتیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم حکومتِ پاکستان کو خطے کی حساس نوعیت کے ساتھ ساتھ بجٹ میں کٹوتیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی آگاہ کریں گے‘۔
اسپیکر چوہدری انوار الحق نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں کٹوتیوں سے خطے پر منفی اثر پڑے گا۔
پریس ریلیز کے مطابق وزرا کا کہنا تھا کہ کشمیری پہلے ہی پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور اگر پاکستان کو اب بھی ان کی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو وفاقی حکومت ان کا پورا بجٹ روکنا چاہے تو روک سکتی ہے۔
دریں اثنا آزاد جموں کشمیر کے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی خواجہ فاروق احمد نے بھی وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بجٹ میں کٹوتیوں کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے خلاف تلخ دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ آئندہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 29 ارب روپے تک کا تیار کرے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ہمیں نہ صرف وفاقی حکومت کی جانب سے براہ راست مالی معاونت کیے گئے منصوبوں کے بلز کی ادائیگی کے لیے کہا گیا ہے بلکہ 29 ارب روپے سے غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا بھی کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے پش نظر آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں ہمارے پاس عملی طور پر بمشکل 8 سے 9 ارب روپے رہ جائیں گے جس کی وجہ سے پارلیمانی پارٹی اس بات پر متفق ہے کہ آئندہ بجٹ کی تیاری ناممکن ہے۔