ایچ ای سی نے ڈاکٹر طارق بنوری کے ‘جانبداری’ کے الزامات کو مسترد کردیا

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے میڈیا ڈائریکٹوریٹ نے ایک غیر معمولی بیان جاری کیا جس میں چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کی جانب سے یونیورسٹیوں کو جاری فنڈز میں جانبداری کے الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنے الزامات میں یونیورسٹیوں کو پسند، ناپسند کی بنیاد پر فنڈز کی فراہمی اور مبینہ طور پر سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی تحقیقی مراکز کے آڈٹ کے خلاف حکومت کی مزاحمت کا دعویٰ کیا تھا۔

کمیشن کی جانب سے ایچ ای سی کے چیئرمین کے اختیارات پہلے ہی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو تفویض کیے جا چکے ہیں۔

بیان میں ڈاکٹر طارق بنوری کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیے گئے ان دعووں کو سخت الفاظ میں مسترد کیا گیا۔

تاہم ڈان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق بنوری نے ایچ ای سی کے بیان کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ وہ یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کرنے اور بڑے تحقیقی اداروں، خاص طور پر انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کے آڈٹ کے خلاف اپنے دعوے پر قائم ہیں۔

آئی سی سی بی ایس کے 2 مراکز ہیں، جن میں سے ایک ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری ہے اور دوسرا ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایچ ای سی نے فنڈنگ فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کچھ یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ سال ‘آئی سی سی بی ایس’ کے آڈٹ کی بھی مزاحمت کی تھی۔

ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ آڈٹ کے ذریعے ہم جاننا چاہتے تھے کہ آئی سی سی بی ایس کا کیا کردار ہے، انہوں نے اس ملک کے لیے کس قسم کی دوا یا ویکسین تیار کی ہے؟ لیکن انہوں نے آڈٹ کی مزاحمت کی اور جب ہم نے دباؤ ڈالا تو انہوں نے کہا کہ ان کی پسند کے آڈیٹرز کو آڈٹ ٹیم کا حصہ بنایا جائے جو آڈٹ کے معیار کے خلاف ہے۔

تاہم ایچ ای سی کے میڈیا ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں تحقیقی مراکز اور ان کی فنڈنگ کا دفاع کیا گیا، جن کا تعلق ڈاکٹر طارق بنوری کے گزشتہ سال کے انٹرویو کے مطابق سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمٰن سے تھا۔

ڈاکٹر عطا الرحمٰن اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی پر وزیر اعظم کی ٹاسک فورس کے چیئرمین اور ایچ ای سی کے رکن ہیں، جو کہ ریگولیٹر کا اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ ہے اور حال ہی میں اس نے ایک قرارداد کے ذریعے چیئرمین کے اختیارات ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو سونپے ہیں۔

گزشتہ سال حکومت نے ایچ ای سی کے آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق بنوری کو ہٹا دیا تھا جس سے ان کی 4 سالہ مدت 2 سال کر دی گئی، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے انہیں گزشتہ ماہ عہدے پر بحال کر دیا تھا۔

اسی دوران وفاقی حکومت نے آئی ایچ سی کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، گزشتہ سال انہیں برطرف کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے 2 دیگر ارکان کے علاوہ ڈاکٹر عطاالرحمٰن کو کمیشن کا نیا رکن مقرر کیا تھا۔

برطرفی کے بعد ڈاکٹر طارق بنوری نے ایک یوٹیوب چینل پر ایک انٹرویو میں الزام لگایا تھا کہ بظاہر ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی ایچ ای سی کے فنڈ سے چلنے والے 3 تحقیقی مراکز کا احتساب شروع کرنے کی وجہ سے انہیں ہٹایا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ تحقیقی مراکز کو سالانہ ایک ارب روپے کے فنڈز ملتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ تسلی بخش نہیں تھا، جب انہوں نے ان مراکز کا احتساب کرنے کا کہا تو حکومت نے مزاحمت کی۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی سرپرستی میں ‘نام نہاد نالج اکانومی’ پراجیکٹ پر ان کے اعتراضات بھی حکومت کو گوارا نہیں تھے جس کے لیے 30 ارب روپے کی فنڈنگ درکار تھی۔

تاہم ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے گزشتہ سال ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

ایچ ای سی کا بیان
ایچ ای سی کے بیان میں کہا گیا کہ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ڈاکٹر طارق بنوری نے مالی طور پر بدحال یونیورسٹیوں کو دیے جانے والے خصوصی سپلیمنٹری گرانٹ کو جانبدارانہ عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جو کہ دراصل عدالتی احکامات اور تمام ضروری منظوریوں کے بعد فراہم کی گئی تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 6 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کا تخمینہ درست نہیں ہے، جس کا حوالہ طارق بنوری نے ٹیلی ویژن پروگرام میں دیا تھا۔

ای سی سی نے مالی طور پر بدحال یونیورسٹیوں کے لیے 2 ارب روپے کے ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری پسند، ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کے تحت دی۔

ایچ ای سی نے کہا کہ 11 بدحال یونیورسٹیوں کو سپلیمنٹری فنڈز دیے گئے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سے قبل ڈاکٹر طارق بنوری نے بھی میڈیا کو غلط بیانات دیے ہیں کہ انہیں عہدے سے اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے کچھ ریسرچ سینٹرز کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کروانے کی کوشش کی تھی جو ان کے دعوے کے مطابق ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن کے پاس گزشتہ 20 برسوں سے کسی بھی ریسرچ سینٹر یا یونیورسٹی میں کوئی انتظامی عہدہ نہیں ہے۔

آئی سی سی بی ایس کی ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر عطا الرحمٰن اس کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ایچ ای سی نے آئی سی سی بی ایس کے اکیڈمک اور فنانشل آڈٹ کی درخواست کی تھی۔

ایچ ای سی نے کہا کہ وفاق کی جانب سے تحریری طور پر درخواستوں کا خیرمقدم کیا گیا تھا لیکن وفاق کا مطالبہ محض اکیڈمک آڈٹ سے متعلق تھا کہ یہ آڈٹ کیمسٹری اور بائیولوجی کے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے ذریعے کروایا جائے جو کہ ایک مناسب مطالبہ تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی بی ایس کا اکیڈمک آڈٹ 2018 میں 11 بین الاقوامی ماہرین نے کیا تھا، جو سینٹر میں ہونے والے تحقیقی کام کے اعلیٰ معیار کی تعریف میں متفق تھے اور انہوں نے اس کے لیے اضافی مالی معاونت کی سفارش کی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ لہٰذا یہ مسئلہ ہرگز اکاؤنٹس کے آڈٹ یا شفافیت کا نہیں تھا، جیسا کہ چیئرمین ایچ ای سی نے میڈیا کو دیے گئے بیانات میں غلط طریقے سے پیش کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایچ ای سی نے خود مختاری چھیننے اور آئی سی سی بی ایس کے بجٹ کو جامعہ کراچی کے ساتھ ضم کرنے کی تجویز دی تھی، جو ممکن نہیں تھا کیونکہ حکومت کا یونیسکو کے ساتھ باضابطہ معاہدہ ہے کہ اس کی مالی خودمختاری برقرار رکھی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ سینٹر کے کام کی بہت سے نوبیل انعام یافتہ افراد نے تعریف کی ہے اور اس کے کھاتوں کا حکومت باقاعدگی سے آڈٹ کرتی ہے۔

ایچ ای سی کے چیئرمین کو ہٹانے پر حکومت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے کالم نگار مشرف زیدی نے بتایا کہ ایچ ای سی سے متعلق جاری حالیہ معاملات انتہائی افسوسناک ہیں، اس پوری بحث میں سب سے اہم اسٹیک ہولڈر طلبہ ہیں اور کوئی بھی پاکستانی طلبہ کے بارے میں فکر مند نظر نہیں آیا جو کہ تشویشناک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں