کورونا وائرس کا نیا ویرینٹ ’اومیکرون‘ پنجاب میں بتدریج سر اٹھا رہا ہے اور صوبے میں وائرس سے اموات اور مثبت کیسز کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ یہ اس لحاظ سے کافی خطرناک ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ 61 فیصد اہل آبادی کو ویکسین بھی لگائی جا چکی ہے، پنجاب میں اوسطا روزانہ 2 ہزار 200 سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ یومیہ اتنی بڑی تعداد میں کیسز وبا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران رپورٹ ہوئے تھے، جب صوبے میں ویکسین لگانے کی مہم ابتدائی مرحلے میں تھی۔
عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو ویکسین اثر نہیں کر رہی یا پھر محکمہ صحت کا عملہ ویکسین سے متعلق جعلی اندراج کر رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 15 مارچ 2021 کو صوبے میں 16 سو مثبت کیسز رپورٹ ہوئے جو اُس سے قبل جون 2020 میں رپورٹ ہوئے۔
عہدیدار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میں 51 فیصد اہل آبادی کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود صوبے بھر میں سامنے آنے والے نصف کیسز کا تعلق صرف لاہور سے ہے۔
عہدیدار کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جعلی اندراج، ویکسین کی کوالٹی اور دیگر نقائص کی ٹھیک طریقے سے تفتیش ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر صوبائی دارالحکومت لاہور کی انتظامیہ کو شہر میں ویکسین کی کوریج بڑھانے کے لیے سنگل ڈوز ویکسین کی 3 لاکھ خوراکیں دیں تھیں، مگر بدقسمتی سے محکمہ صحت میں موجود بیوروکریسی کی جانب سے معاملے کی سنگینی کا بہت کم احساس ہونے اور سست طریقہ کار کی وجہ سے وہ ویکسین ابھی تک لگائی نہیں جا سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت کے ڈپٹی سیکریٹریز کو شہر کے مختلف ٹاؤنز کو یہ نئی ویکسین لگانے کی ذمے داری سونپی ہے۔
ڈپٹی سیکریٹریز نے گھر گھر ویکسین لگانے کی ذمےداری ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو دی ہے جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ زیادہ تر شہری ویکسین کے معیار پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے اور اس کے میڈیکل ری ایکشن کے خوف سے گھر پر ویکسین لگانے سے انکاری ہیں۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ لاہور میں ویکسین لگانے کے عمل میں سست روی کے علاوہ شہریوں کی جانب سے ویکیسن لگوانے سے انکار جعلی اندراج کے امکانات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
اتوارکے دن کے مثبت کیسز کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور میں وائرس سے متاثر ہونے کی شرح 19.3 فیصد تک بڑھی ہے جو کہ کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ ’اومیکرون‘ کے باعث آنے والی کورونا کی پانچویں لہر کے دوران سب سے زیادہ مثبت شرح ہے۔
اسی طرح پنجاب میں بھی مثبت کیسز کی شرح 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران صوبے بھر میں کورونا وائرس سے متعلقہ پیچیدگیوں کے باعث تشویشناک حالت میں موجود مزید 12 مریض انتقال کرچکے ہیں۔
لاہور کے بعد راولپنڈی مثبت کیسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا جہاں مثبت کیسز کی شرح 16.3 فیصد رہی، اس کے بعد بہاولپور میں 12.5 فیصد اور فیصل آباد میں مثبت کیسز کی شرح 12.4 فیصد رہی جبکہ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران پنجاب میں کورونا وائرس کے 2 ہزار 212 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رپورٹ ہونے والے 95 فیصد کیسز اومیکرون ویرینٹ کے ہیں جبکہ بقیہ 5 فیصد کیسز کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویرینٹ کے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ لہر نئے کیسز، وائرس سے متاثر ہونے کی مثبت شرح اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کا بوجھ بڑھنے سے اموات میں اضافےکا رجحان ظاہر کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کی موجودہ لہر کے دوران زیادہ تر کیسز اور اموات لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد میں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
میو ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہم سانس کی قلت (ڈیسپنیا) یا سانس لینے میں دیگر مسائل کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہے ہیں اور مریضوں میں سے اکثریت بزرگوں کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اومیکرون اتنا مہلک نہیں ہے تاہم گھروں میں قرنطینہ کے دوران بزرگ لوگوں کی دیکھ بھال میں غفلت کے باعث پچیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈز کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 ہزار 212 مثبت کیسز میں سے ایک ہزار 221 کیسز لاہور اور 268 کیسز راولپنڈی میں رپورٹ ہوئے ہیں، اسی طرح فیصل آباد میں 126 کیسز، بہاولپور میں 101 کیسز، رحیم یار خان میں 61 کیسز، گوجرانوالہ میں وائرس کے 46 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ دیگر کیسز دیگر چھوٹے اضلاع سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
بہالپور میں مثبت کیسز کی شرح میں اچانک تیزی نے محکمہ صحت کے حکام کو چونکا دیا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ حالیہ بڑی سیاحتی سرگرمیاں بھی مثبت کیسز میں اضافے کی ایک وجہ ہوسکتی ہیں۔