اسلام آباد (آئی این این) اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ دوران سماعت کے سابق سینیٹر سید ظفر علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ نواز شریف بیماری کی غرض سے لاہور ہائیکورٹ کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے، نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے شہباز شریف نے بیان حلفی جمع کرایا، نواز شریف مختلف عدالتوں سے اشتہاری ہیں، استدعا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے، عدالت نواز شریف کی واپسی کے لیے احکامات جاری کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف کا نام وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نکالا، کسی عدالت نے نہیں، وفاقی کابینہ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے عدالت سے اجازت نہیں لی۔
ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شورٹی جمع کرانے کا کہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے اس عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا جہاں اپیلیں زیر سماعت ہیں وکیل نے کہا کہ حکومت نے ایک مرتبہ نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے رقم جمع کرانے کی شرط رکھی تھی، لاہور ہائیکورٹ میں رٹ فائل ہوئی جس پر ایک آرڈر ہوتا ہے،اُس عدالتی کارروائی میں نواز شریف اور شہباز شریف نے انڈر ٹیکنگ دی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر عبوری حکم تھا یا حتمی فیصلہ سنایا گیا تھا؟،ایک عبوری حکم جاری ہوا اس کے بعد درخواست تاحال زیر التوا ہے، کیا حکومت نے اس حکم کو چیلنج کیا؟،عبوری حکم کو چیلنج نہ کر کے حکومت نے اس آرڈر کو تسلیم کیا، جس پٹیشن میں عبوری حکم آیا وہ بھی تاحال لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، چیف جسٹس نے کہاکہ جس پٹیشن پر ابھی فیصلہ نہیں آیا اور عبوری حکم بھی چیلنج نہیں کیا گیا اس پر ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟،کیا یہ عدالت کسی اور ہائی کورٹ میں زیر سماعت معاملے پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہے؟، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس درخواست کو مثالی جرمانے کے ساتھ خارج کرتے لیکن آپ سینئر وکیل ہیں اس لیے اس طرف نہیں جا رہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں یا اس پر آرڈر پاس کریں ؟،وکیل نے کہاکہ اگر آپ نے درخواست مسترد کرنی ہے تو میں واپس لیتا ہوں، میں لاہور ہائیکورٹ جانے کیلئے درخواست واپس لے سکتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہیں بھی جانے کیلئے آزاد ہوں گے، ہم آبزرویشن نہیں دیں گے، ہم اس درخواست پر مناسب حکمنامہ جاری کریں گے،عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔