سخت گیر ملک سمجھے جانے والے ملک شمالی کوریا کی حکومت نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ ان کے ہاں کورونا کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم حکام نے ظاہر ہونے والے کیسز کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے ’کے این سی اے‘ نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے 12 مئی کو تصدیق کی کہ ملک میں پہلی بار ’اومیکرون‘ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق دارالحکومت پیانگ یانگ سے مشتبہ طور پر بیمار ہونے والے افراد کے نمونے 8 مئی کو کیے لیے گئے تھے، جن میں ’اومیکرون‘ کی تشخیص ہوئی۔
ملک میں پہلی بار کورونا کیسز کے رپورٹ ہونے کے بعد نہ صرف پیانگ یانگ بلکہ دیگر شہروں میں بھی لاک ڈاؤن نافذ کرنے سمیت سخت احتیاطی تدابیر کا اعلان کردیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں پہلی بار شمالی کوریا کے سربراہ کِم جنگ اُن کو فیس ماسک میں دیکھا گیا۔
حال ہی میں شمالی کوریا کے سربراہ کو پہلی بار فیس ماسک میں دیکھا گیا—فوٹو: اے ایف پی
شمالی کوریا کی حکومت گزشتہ دو سال سے دعوے کرتی آئی ہے کہ ان کے ہاں کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، تاہم امریکا سمیت دنیا بھر کے ممالک شمالی کوریا کے دعووں پر خدشات ظاہر کرتے آئے تھے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی شمالی کوریا میں کورونا کیسز کے رپورٹ نہ ہونے اور وہاں پر ویکسین کی رسائی نہ ہونے پر بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت سمیت کئی اداروں کا ماننا تھا کہ شمالی کوریا میں کافی عرصہ قبل ہی کورونا پہنچ چکا تھا مگر وہاں ٹیسٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے وبا کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
دنیا بھر میں دسمبر 2019 میں کورونا کا آغاز ہوا تو شمالی کوریا نے جنوری 2020 میں ہی اپنی زمینی سرحدیں بند کردی تھیں اور بیرون ممالک سے اسمگل ہونے والی اشیا یا امپورٹ کی گئی چیزوں پر پابندی عائد کردی تھی۔
زمینی سرحدیں بند کیے جانے سے جہاں شمالی کوریا میں اشیائے خردونوش کی کمی دیکھی گئی، وہیں ادویات سمیت دیگر اہم چیزوں کی قلت بھی پیدا ہوئی۔
شمالی کوریا کو عالمی ادارہ صحت سمیت جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے بھی کورونا کی وبا کے دوران ویکسین اور ٹیسٹ کٹ کی فراہمی کی پیش کش کی تھی مگر وہاں کی حکومت نے ایسی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
کورونا کے آغاز میں شمالی کوریا کے حوالے سے یہ غلط خبریں بھی پھیلی تھیں کہ وہاں پر کورونا کے چند کیسز آنے کے بعد کورونا مریضوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا، تاہم ایسی افواہوں میں کوئی سچائی نہیں تھی۔
ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شمالی کوریا میں حالیہ اومیکرون کیسز سے قبل ہی وہاں کورونا موجود تھا اور اب بھی ڈھائی کروڑ افراد کے ممالک میں ہزاروں لوگ بیماری کے ہمراہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔