فیس بک کے خلاف آواز اٹھانے والی فرانسز ہوگین نے امریکی سینیٹ میں جمع کروائے گئے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ، ‘اس وقت فیس بک اپنی مرضی کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اربوں افراد تک کون سی معلومات پہنچانی ہے اور کون سی نہیں پہنچانی، یوں لوگوں کے حقیقت کو دیکھنے کے نظریے میں تبدیلی پیدا کردی جاتی ہے’۔
ڈیٹا سائنسدان اور فیس بک کی سابق ملازمہ ہوگین نے ٹیکنالوجی کے اس بڑے ادارے پر یہ الزام لگاتے ہوئے اس کی داخلی دستاویزات دی وال اسٹریٹ جرنل اور امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لیک کی تھیں کہ کمپنی کے علم میں یہ بات تھی کہ کس طرح ‘سیفٹی کے بجائے مسلسل منافع’ کو فوقیت دینے سے فیس بک کی مصنوعات نفرت کو پھیلانے اور بچوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔
حتیٰ کہ جو افراد فیس بک صارف نہیں ہیں وہ بھی فیس بک صارفین میں پیدا ہونے والی شدت پسندی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ‘ہمارے گہرے خیالات، احساسات اور رویوں پر اختیار رکھنے والی کمپنی کو حقیقی نگرانی کی ضرورت ہے’۔
ہوگین نے امریکی سینیٹ میں گواہی دیتے ہوئے ‘اخلاق سے عاری’ کمپنی کی نقصان رساں پالیسیوں سے آگاہ کیا۔ سینیٹ کی کارروائی کے بعد وال اسٹریٹ جرنل نے تنقید سے بھرپور رپورٹ شائع کی جس میں فیس بک پر اس کی ایپ انسٹاگرام کے ٹین ایج افراد کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق اپنی ہی تحقیق کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا۔
پھر فیس بک نے خاموشی سے داخلی تحقیق شائع کی جس کے بعد امریکی سینیٹ نے اس ملٹی نیشنل ٹیک کمپنی کو گھنٹوں طویل سماعت میں خوب سوالات داغے۔ قانون ساز اور دی واشنگٹن پوسٹ اور بلوم برگ جیسے اخباری ادارے اس کارروائی کو فیس بکس بگ ٹوبیکو پکار رہے ہیں۔ سینیٹ کی اس سماعت کے بعد متعدد امریکی اخباری ادارے متعلقہ خبریں اور مضامین شائع کر رہے ہیں جن کو مجموعی حیثیت میں the facebook papers پکارا جاتا ہے۔
ہوگین فیس بک کا حصہ تھیں لیکن جب انہوں نے ٹیک کمپنی کو منافعوں کے لیے جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ جیسے اہم مسائل کو صلاحیتوں کے باوجود حل نہ کرتے ہوئے پایا تو انہوں نے کمپنی چھوڑ دی۔ انہوں نے کمپنی کو ضابطہ کار میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہوگین کہتی ہیں کہ، ‘فیس بک ہمارے تحفظ کی قیمت پر منافعے کماتی ہے’۔
ہوگین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ فیس بک مواد کو اس طریقے سے صارفین کے سامنے پیش کرتا ہے جس کی مدد سے صارف زیادہ سے زیادہ انگیج رہتا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ تبصرے، لائیکس اور شیئرز کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ، ‘جب آپ زیادہ مواد صرف کرتے ہیں تو فیس بک زیادہ پیسہ بناتا ہے’۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انگیجمنٹ بڑھانے کی غرض سے جذبات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
2012ء میں فیس بک نے ایک متنازع انسانی تحقیقی مطالعہ کروایا تھا جس کے تحت جذبات پر مبنی نیوز فیڈ کی چھیڑ چھاڑ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے 6 لاکھ 89 ہزار 3 صارفین کی نیوز فیڈ پر خود ساختہ طور پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے والے الگورتھم میں تبدیلیاں کیں۔ ہوگین نے بتایا کہ، صارفین کو جتنا زیادہ طیش آور مواد دکھایا جاتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اس مواد کو وقت دیتے اور صرف کرتے ہیں’۔
ان کے مطابق کمپنی نے 2020ء میں ہونے والے امریکی انتخابات سے قبل مواد سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کیں اور اپنی نیوز فیڈ پر سیاسی مواد کو کم سے کم ترجیح دیتے ہوئے جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں کیں۔
تاہم، امریکی دارالحکومت میں ہونے والے فساد کے بعد اس پرانے الگورتھم کو بحال کردیا گیا جو صارفین کی انگیجمنٹ کو ترجیح دیتا ہے۔ ہوگین کہتی ہیں کہ، ‘چونکہ فیس بک الیکشن کے بعد پہلے جیسی پیداوار چاہتا تھا اس لیے کمپنی والوں نے اپنا حقیقی طریقہ کار اپنانا شروع کردیا۔ میرے نزدیک یہ ایک بہت ہی گہرا مسئلہ ہے’۔
سویڈن میں مقیم ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ انجینئر محمد عمیر نے ای او ایس کو بتایا کہ، ‘فیس بک نیوز فیڈ سمیت زیادہ تر سوشل میڈیا ایپس بنیادی algorithmic recommendation systems کا استعمال کرتی ہیں۔
عام طور پر ویب سائٹس اپنے صارفین کی سرگرمیوں اور ان کے ماضی کے رویوں کو جاننے کے لیے کوکیز استعمال کرتی ہیں۔ مشین آموزی (machine learning) (یہ وہ الگوتھرم ہوتے ہیں جو ڈیٹا اور تجربے کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں، اسے مصنوعی ذہانت کی ایک شاخ کے طور پر دیکھا جاتا ہے) کے معاملے میں آج کل recommender systems کافی مقبول ایپلیکیشن ہے جسے صارف کی متعلقہ پسند یا دلچسپی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں ڈیزائن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صارفین کو آن لائن ذرائع پر ضرورت سے زیادہ آپشنز نہ دیکھنے پڑیں لیکن اب اس نظام کے ذریعے ویب سائٹس کے صارفین کی انگیجمنٹ بڑھانے یا مختلف مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ فروخت کو ممکن بنانے جیسے مقاصد بھی پورے کیے جا رہے ہیں۔
محمد عمیر کہتے ہیں کہ، ‘مثلاً جب آپ ایمازون جیسے آن لائن خریداری کے پورٹل پر کسی مخصوص چیز کو تلاش کرتے ہیں تو آپ کو اس کا متبادل یا متعلقہ ساز و سامان بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ جب آپ نیٹ فلکس پر کوئی فلم دیکھتے ہیں تو آپ کو اسی نوعیت کی دیگر فلمیں دیکھنے کے مشورے بھی دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح ایپس صارفین کی انگیجمنٹ کو یقینی بناتی ہیں’۔
لو فار ڈیٹا (Love For Data) (یہ ایک مشاورتی ادارہ ہے جو ڈیٹا سائنس اور فیصلہ سازی کے لیے مصنوعی ذہانت اور statistical learning tools کو استعمال کرتا ہے) کے بانی، شراکت دار اور چیف ڈیٹا آرکیٹیکٹ نعمان خالد کہتے ہیں کہ، ‘پورا کا پورا سوشل میڈیا متعصب ہے۔ جب آپ سرچ انجنز کا استعمال کرتے ہیں تو نتائج کی فہرست میں ‘ردو بدل’ کے بعد آپ کو وہی نتائج دکھائے جاتے ہیں جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں’۔
خالد کا کہنا ہے کہ، ‘آپ یا میں ابھی کوئی چیز سرچ کریں گے تو ہم دونوں کے نتائج میں فرق نظر آئے گا۔ ہر وہ ویب سائٹ جو آپ کو کچھ فروخت کرنا چاہتی ہے یا پھر آپ کو جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے وہ آپ کا ڈیٹا اکٹھا کرنے لگتی ہے۔ اب اس ڈیٹا کو کس طرح سے ذخیرہ، پراسس کرتے یا پیسے کماتے ہیں، اس کا دار و مدار ان کی اپنی اخلاقی اور اصولی اقدار پر ہوتا ہے’۔
مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک ایسی ایپ یا ویب پیج بنایا جائے جس سے بچ نکلنا لوگوں کے لیے آسان نہ ہو۔ عمیر نے بتایا کہ ‘ابتدائی طور پر فیس بک صرف اسٹیٹس اور تصاویر میں قید آپ کی زندگی کے لمحات کو دیگر سے بانٹنے یا دیکھنے کا ایک پلیٹ فارم تھا۔ بعدازاں اسنیپ چیٹ نے اسٹوریز کا آپشن متعارف کروایا جس کے ذریعے لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی کے لمحات اسنیپ شاٹ بناکر دیگر سے بانٹنے لگے۔ اس فیچر کو بعدازاں انسٹاگرام اور فیس بک نے بھی اختیار کرلیا لہٰذا اب ہم اپنی زندگی کے لمحات کو دیگر سے بانٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے’۔
ماہرِ نفسیات اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے بطور پروفیسر وابستہ علی مدیح ہاشمی کہتے ہیں کہ، ‘میں نے عموماً دیکھا اور میرے پاس آنے والے افراد سے سنا ہے کہ کس طرح انسٹاگرم پر موجود لوگ کتنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں، کس طرح مختلف مقامات کی سیر کے لیے جاتے اور ہر طرح سے بہتر نظر آتے ہیں’۔ وہ کہتے ہیں کہ، ‘وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ لوگ فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنا پسندیدہ مواد ہی شیئر ہیں کرتے ہیں۔ لوگ اپنی وہ تصاویر شیئر نہیں کرتے جن میں بدصورت نظر آتے ہیں’۔
ہاشمی مزید کہتے ہیں کہ لوگوں کا اپنی زندگی کے بدتر دنوں کا انسٹاگرام پر موجود افراد کے ‘بہترین دنوں’ سے موازنہ انہیں ڈپریشن کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ دیگر افراد کی زندگیوں کا اپنی زندگی کے ساتھ مسلسل موازنہ انہیں مزید مشکلات سے دوچار کردیتا ہے۔
علی مدیح ہاشمی کے مطابق، ‘عام طور پر لوگ اپنے بہتر سے بہتر چہرے آن لائن ذرائع پر دکھاتے ہیں تاکہ یہ تاثر دیں سکیں کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں جس کے سبب آپ کے اندر ‘محرومی’ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ مگر کیسی محرومی؟ یہ بتا پانا اور یہ فیصلہ کرپانا مشکل ہوتا ہے’۔
مختلف مطالعوں سے یہ بات پتا چلی ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال ذہنی صحت سے جڑے مسائل یا ذہنی مسائل بڑھانے کا سبب بنتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ خودکشی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ ہاشمی کے مطابق ٹین ایج لڑکیاں ہارمونز اور ثقافتی اثرات کے باعث جسمانی ساخت سے جڑے مسائل پر کافی زیادہ حساس ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ جب وہ سوشل میڈیا پر اپنا بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہوئے شوبز شخصیات کی فلٹر شدہ اور چنندہ تصاویر دیکھتی ہیں تو ان کی ذاتی ساکھ کمزور پڑتی جاتی ہے۔
کلینکل نفسیات کے ماہر شہزور ہاشمی کہتے ہیں کہ ‘ٹین ایج لڑکیوں پر خاص طور پر یہ بات صادق آتی ہے کیونکہ ایک تو وہ پہلے تبدیلیوں سے گزر رہی ہوتی ہیں اوپر سے وہ دیگر سے اپنا موازنہ بھی شروع کردیتی ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر بظاہر بہترین زندگی گزارنے والوں سے اپنا موازنہ کرکے خود کو بڑی آسانی سے کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
علی مدیح ہاشمی اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ ان تمام ذرائع نے رابطے، کاروبار، صحت اور سیاست کے میدان میں انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے تاہم یہ ذرائع ٹیکنالوجی اور صارفین کے عام رویوں کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے ایسا نظام تشکیل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ویب سائٹ یا ایپ پر گزارنے لگتے ہیں۔ آپ جتنا زیادہ وقت دیں گے اتنا ہی زیادہ فائدہ ایپ سازوں کو ہوگا کیونکہ حقیقی معنوں میں وہ آپ کا وقت مشتہرین کو ‘فروخت’ کرتے ہیں۔
نعمان خالد کہتے ہیں کہ، ’ہمیں کیسے پتا چل سکتا ہے کہ جس ایپ کو ہم سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ اسکرین پر ہمیں اپنے اشاروں پر چلا رہی ہے؟ اگر آپ کسی سوشل میڈیا ایپ کو اپنے فون سے ڈیلیٹ کردیں گے تو کچھ ہفتوں کے بعد آپ کی سوشل میڈیا فیڈز بھی تبدیل ہوجائے گی، کیونکہ وہ ایپ آپ کے فون سے ڈیٹا حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے یہ پلیٹ فارمز کیا نتائج برآمد کرسکتے ہیں، یہ کس طرح کام کرتے ہیں اور ان سے ہمارا کیا نقصان ہو رہا ہے، اس حوالے سے بہت زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے’۔