روسی فوجیوں نے ایک ہفتے کی تباہ کن جنگ کے بعد بڑے یوکرینی شہر خرسون پر قبضہ کر لیا، ایک ہفتے کی جنگ نے دس لاکھ لوگوں کو پناہ گزین بنا دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق 2 لاکھ 90 ہزار افراد پر مشتمل بحیرہ اسود کے اس شہر نے گزشتہ سال نیٹو کے تعاون سے جنگی کھیلوں کی میزبانی کی تھی ، اس پر قبضہ ماسکو کے لیے ایک نمایاں کامیابی ہے جبکہ اس نے ممکنہ جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے تیاری کرلی ہے۔
یوکرین کے علاقائی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ روسی قابض خرسون شہر کے تمام حصوں میں موجود تھے۔
خرسون میں تین روز سے جاری محاصرے کے بعد خوراک اور ادویات کی کمی تھی اور لاشوں کو جمع کرنے اور دفن کرنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا تھا، شہر کے میئر نے بتایا تھا کہ وہ وہ مسلح مہمانوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
اپنے ایک فیس بک پیغام میں شہر کے میئر کا کہنا تھا کہ انہوں نے حملہ آور قوتوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا، لیکن رات کے وقت کرفیو اور گاڑیوں کی آمدورفت پر پابندیوں سے اتفاق کیا ہے، اب تک سب ٹھیک ہے، ہمارے اوپر جو جھنڈا لہرا رہا ہے وہ یوکرین کا ہے۔ اور اسی طرح رہنے کے لیے ان تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔
دوسرے مقام پر رکے ہوئے روس نے جنوبی محاذ پر اہم پیش رفت جاری رکھی ہوئی ہے، فوجوں کے خرسون میں داخل ہونے کے ساتھ مغرب اور شمال کا راستہ کھول رہا ہے اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل اہم بندرگاہی شہر ماریوپول کا محاصرہ کر رہا ہے۔ ْْْْْْْْْْ دوسری جانب میئر وادیم بویچینکو نے کئی گھنٹوں تک بمباری جاری رہنے کی اطلاع دی، جس نے شہریوں کو بجلی، پانی اور جمادینے والی سردی میں حرارتی نظام کے بغیر رہنے پر مجبور کردیا ہے
انہوں نے کہا کہ آج کا دن اس جنگ کے سات دنوں میں سب سے مشکل اور ظالمانہ تھا، آج وہ صرف ہم سب کو تباہ کرنا چاہتے تھے، خرسون میں ماسکو کی فتح روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی فوج کے شمال مشرق اور جنوب سے یوکرین میں داخل ہونے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے۔
جنگ کے دوران روسی افواج نے ملک بھر میں شہری اہداف پر وقفے وقفے سے بمباری کی ہے، بشمول دارالحکومت کیف اور اکثریتی روسی بولنے والے دوسرے شہر خارکیف میں جو اب مزید شدید حملے کی زد میں آ رہا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے میزائلوں، گولوں اور راکٹوں کے بہاؤ کو جنگی جرم قرار دیا ہے اور عالمی فوجداری عدالت نے تصدیق کی ہے کہ تحقیقات جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی ایجنسی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار نے پر تشدد یورپ کے خون آلود ماضی کی یادوں کو جلا بخشی ہے، اب تک دس لاکھ یوکرینی شہری پڑوسی ممالک پولینڈ، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ اور مالڈووا بھاگ چکے ہیں۔
ایک پناہ گزین یوکرینی شہری کا صورتحال پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جب روسی فوجی آئے تو ہم نے سب کچھ وہیں چھوڑ دیا، انہوں نے ہماری زندگیاں برباد کر دیں۔
جنگی مشین
روسی صدر کے طویل حملے کو اکثر ناقص لاجسٹکس، حکمت عملی کی غلطیوں اور یوکرین کی کم طاقت اور کم ہتھیاروں سے لیس فوج کی جانب سے شدید مزاحمت اور رضا کار جنگجوؤں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث نقصان پہنچا ہے۔
جلے ہوئے روسی ٹینک اور ان کے ڈرائیوروں کی جلی ہوئی باقیات اور غیر مسلح یوکرینی باشندوں کی قابض افواج کا مقابلہ کرنے کی متعدد تصاویر سامنے آئی ہیں۔
ایک سینیئر امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ کیف کے شمال میں روسی فوجی گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ ایندھن اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ایک جگہ جام ہو گیا تھا۔
روسی حکام نے حملے سے متعلق خاموشی اختیار کر رکھی تھی، اور کریملن نے مقامی میڈیا کو خوش اسلوبی سے نام نہاد خصوصی فوجی آپریشن پر بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا۔
لیکن وزارت دفاع نے گزشتہ روز پہلی بار تسلیم کیا کہ اس کے 498 فوجی ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔
یوکرینی فورسز نے روسیوں کی تعداد اس تعداد سے 10 گنا بتائی ہے جبکہ اصل اعداد و شمار معلوم نہیں ہوسکے، خطرات اور پابندیوں کے باوجود روسیوں نے روسی صدر کی 20 سالہ حکمرانی کو براہ راست چیلنج کرتے ہوئے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔
ماسکو اور سینٹ پیٹربرگ سمیت ملک بھر سے ہزاروں جنگ مخالف مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
سفارتی مذمت
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھارتی اکثریت سے روس کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرتے ہوئے ماسکو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر یوکرین سے نکل جائے۔
واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی سفارت کار انٹونی بلنکن نے خبردار کرتے ہوئے روس پر الزام لگایا کہ وہ ایسے مقامات پر حملہ کر رہا ہے جو فوجی اہداف نہیں ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں شہری ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں اور وہ اگلے ہفتے یوکرین کی حمایت اور جنگ بندی کے خاتمے کی کوششوں کے لیے مشرقی یورپ کا سفر کریں گے۔
مغربی ممالک پہلے ہی روس کی معیشت پر بھاری پابندیاں عائد کر چکے ہیں اور فنانس سے لے کر ٹیکنالوجیز، کھیلوں سے لے کر جمالیات تک ہر شعبے میں روس کے خلاف عالمی پابندیاں عائد کی جاچکیں اور اس کا بائیکاٹ کیا جا چکا ہے۔
یورپی یونین اور نیٹو کے ارکان پہلے ہی یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود بھیج چکے ہیں جبکہ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ فوج نہیں بھیجیں گے۔