اسلام آباد: (آئی این این) امریکی صدر جوزف بائیڈن کی طرف سے پاکستان کے جوہری اثاثے سے متعلق دیئے گئے بیان کے بعد پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے الزامات مسترد کر دیئے۔
ذرائع کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ آرمن بلوم کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا، امریکی صدر بائیڈن کے بیان پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے وضاحت طلب کی گئی، امریکی سفیر کو پاکستان کی جانب سے احتجاجی مراسلہ بھی تھمادیا گیا۔ اور امریکی صدر کے الزامات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیکر مسترد کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق دفترخارجہ میں جاری اجلاس کے دوران امریکی سفیر کو طلب کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں دفترخارجہ حکام کی جانب سے امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات، کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام مکمل طور پر محفوظ ہیں، پاکستان نیوکلئیر پروگرام باقاعدہ طور پر آئی اے ای اے اور عالمی معیارات کے مطابق ہے، امریکا بھارت کے غیر محفوظ ایٹمی و میزائل پروگرام پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، امریکی صدر کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ایٹمی پروگرام پر جوبائیڈن کا بیان، امریکی سفیر ڈیمارش کے لیے دفترخارجہ طلب
اس سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امریکی صدر بائیڈن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کئی ممالک کے بارے میں بات کی اور اس دوران پاکستان کے حوالے سے بھی بیان دیا جس پر میری وزیراعظم سے بات ہوئی ہے اور ہم نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو ایک سرکاری ڈیمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی اور سیکیورٹی کا معاملہ ہے تو ہم نے عالمی جوہری ایجنسی کے تمام معیارات کو پورا کیا ہے۔ اگر جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی اور حفاظت کے حوالے سے سوالات تو ہمارے پڑوسی بھارت سے پوچھنے چاہئیں جس نے حال ہی میں حادثاتی طور پر پاکستانی سرزمین پر میزائل فائر کیا تھا جو ناصرف غیر ذمے دارانہ عمل اور انتہائی غیرمحفوظ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے قابلیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے صدر بائیڈن کے بیان پر حیرانی ہوئی، میرا ماننا ہے کہ یہ محض غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے جو روابط کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے لیکن خوش قسمتی سے اب ہم روابط کی بحالی کے سفر پر گامزن ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان امریکا کے دوطرفہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ سیکریٹری اسٹیٹ کی سطح پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں منائی گئی تھی اور اگر اس حوالے سے کوئی تشویش تھی تو اس ملاقات میں مجھ سے یہ معاملہ اٹھایا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہم نے سفیر کو ڈیمارش کے لیے بلایا ہے، میرا خیال ہے کہ ہمیں انہیں اس موقف کی وضاحت کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس بیان سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، ہم اب تک روابط قائم کیے ہیں، اس کو مثبت انداز میں جاری رکھیں گے۔
بلاول نے مزید کہا کہ پاکستان کا بائیڈن کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ان کے سفیر کو بلائیں گے اور ڈیمارش جاری کریں گے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی سرکاری تقریب تھی، نہ ہی یہ پارلیمنٹ سے خطاب یا انٹرویو تھا۔ یہ ایک فنڈز اکٹھا کرنے کی تقریب تھی جس میں غیر روایتی گفتگو کی گئی اور اسی دوران یہ جملہ استعمال کیا گیا لہذا اسے اسی انداز میں دیکھنا چاہیے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جہاں تک ہماری اقتصادی سفارت کاری کا تعلق ہے تو مجھے یاد ہے کہ جب آصف زرداری صدر تھے تو انہوں نے ہماری خارجہ پالیسی امداد نہیں تجارت پر مبنی تھی، ہم نے امریکا کے ساتھ روابط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو تاریخی سطح تک پہنچایا اور عشروں بعد روس کے ساتھ تعلقات بھی زرداری کے ذریعے ہی بحال ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اسی پالیسی کو آگے چلانے اور اپنانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہوئی اور بدقسمتی سے ان کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک اور عرب ریاستوں میں اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچا تھا جسے ہم درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔