ایران نے تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کو اپنے ڈرون فراہم کیے گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران میں جمعے چار نومبر کو سن 1979 کے اس واقعے کی یاد منائی گئی جب طلبا مظاہرین نے دیواریں اور باڑ عبور کر کے تہران میں امریکی سفارت خانے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے شدید بیمار ایرانی رہنما شاہ محمد رضا پہلوی کو امریکا میں سرطان کے علاج کی اجازت دے دی تھی، جو طلبہ میں برہمی کی وجہ بنی۔
سفارت خانے کے عملے میں شامل چند افراد نے کینیڈیئن سفیر کے مکان میں چھپ کر پناہ لی۔ بعد میں وہ سی آئی اے کی مدد سے ایران سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ 444 ایام پر محیط محاصرہ ایران امریکی تعلقات میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ سفارتخانے میں محصور تمام افراد کو 1981 میں نئے امریکی صدر رونیلڈ ریگن کی حلف برداری والے روز رہائی ملی۔
رائٹرز کے مطابق اس موقع پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے سابق امریکی سفارت خانے کی عمارت کے سامنے جمع حکومت نواز مظاہرین سے خطاب کیا۔
تقریر میں رئیسی نے حکومت مخالف مظاہرین کو خبردار کیا کہ جس کسی نے بھی امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی ملک کے مفادات کے خلاف گیا۔ اگر امریکا سمجھتا ہے کہ وہ شام اور لیبیا کی طرح ایران میں بھی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائے گا، تو یہ غلط فہمی ہے۔
1979 کے واقعات پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے بیان میں کہا کہ ملک سفارت خانے کے عملے کی بے لوث قربانی پر شکر گزار ہے۔
اس موقع پر انہوں نے ایران میں زیر حراست امریکی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
ایران میں چار نومبر کو 1979 کے واقعے کی یاد میں جمع چند مظاہرین نے تکون کی شکل کے ایرانی ڈرون کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جو روس اب استعمال کرتا ہے۔ یہ اس پیش رفت کی جانب اشارہ تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے پہلی بار یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کے ملک نے روس کو ڈرون فراہم کیے ہیں۔
حسین امیر عبدا للھیان نے تہران میں صحافیوں کو تاہم بتایا کہ ایران نے یوکرین جنگ شروع ہونے سے کئی ماہ قبل روس کو محدود تعداد میں ڈرون فراہم کیے تھے۔
اس سے قبل ایرانی حکام روس کو یوکرین جنگ کے لیے اسلحے کی فراہمی کی مسلسل تردید کرتے رہے تھے۔ روس نے حالیہ ہفتوں کے دوران ایرانی ساختہ ڈرون یوکرین میں استعمال کیے ہیں جس پر ایران کو عالمی تنقید کا سامنا ہے۔