امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے جب پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے اس امریکی عہدیدار کا نام بتاتے ہوئے کہ جنہوں نے ایک خط میں ان کی حکومت کے بارے میں دھمکی آمیز ریمارکس دیے تھے، ڈونلڈ لو کا نام لیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی معاون وزیر خارجہ آج کل بھارت کا دورہ کررہے ہیں جہاں بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے ان کا انٹرویو کیا۔
انٹرویو کے دوران ان کی واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر سے ہونے والے بات چیت کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔
انٹرویو لینے والے نے ان سے پوچھا کہ ’عمران خان یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ آپ نے امریکا میں پاکستانی سفیر سے بات چیت کی اور انہیں کہا کہ اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد کی صورت میں بچ جاتے ہیں تو پاکستان مشکل میں پڑجائے گا اور امریکا پاکستان کو معاف نہیں کرے گا، کوئی ردِ عمل دیں گے؟
تاہم ڈونلڈ لو نے براہِ راست کوئی جواب دینے کے بجائے کہا کہ ’ہم پاکستان میں ہونے والی پیش رفتوں کو دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کے آئینی عمل اور قانون کی حکمرانی کا احترام اور اس کی حمایت کرتے ہیں‘۔
جب نے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی اس طرح کی کوئی بات چیت ہوئی تھی تو انہیں سوال کو دوبارہ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سوال پر میرے پاس آپ کے لیے بس یہی جواب ہے‘۔
دوسری جانب ڈان کی جانب سے عمران خان کے ڈونلڈ لو سے متعلق بیان پر سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے معاون سیکریٹری کا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ ’ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے‘۔