اقوام متحدہ کے مبصرین کی ایک ٹیم کی رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 3 ہزار سے 5 ہزار جنگجو اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی رپورٹ میں یہ بھی خبردار کیا گیا کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان، القاعدہ اور دیگر ایسے کئی دہشت گرد گروپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے جن کا تعلق وسطی ایشیا اور اس سے باہر کے خطوں سے ہے۔
امریکی حکومت اور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ القاعدہ افغان جہاد کے آغاز سے ہی افغانستان میں سرگرم ہے۔
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ القاعدہ کی سرگرمیوں کو روکنے کے اعلانیہ وعدے کے باوجود افغانستان کے نئے طالبان رہنما ایسا نہیں کر رہے، تاہم طالبان امریکی حکام کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 29 ویں رپورٹ جنوبی ایشیا اور اس سے باہر سرگرم دہشت گرد گروپوں کی ایک وسیع تعداد پر روشنی ڈالتی ہے، اس میں جون سے دسمبر 2021 کے درمیان ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں جنوبی ایشیا سے متعلق باب میں افغانستان میں طالبان کے قبضے اور خطے کے دیگر ممالک پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو ان گروپوں میں شامل کیا گیا ہے جن کے طالبان، القاعدہ اور داعش-خراسان سمیت خطے کے تمام بڑے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد 3 ہزار سے ساڑھے 5 ہزار کے درمیان ہے، جن کے رہنما نور ولی محسود ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کر رہے ہیں اور اس ثالثی سے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں میں کمی آئی ہے۔
مذاکرات کاروں نے افغانستان میں ٹی ٹی پی اراکین کے اہل خانہ کی موجودگی پر بھی تبادلہ خیال کیا، جو پاکستان میں اس یقین دہانی کے تحت دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں کہ وہ مقامی آبادیوں میں پرامن طریقے سے دوبارہ شامل ہو سکیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے سخت تردید کے باوجود القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے جس کی قیادت اسامہ محمود کررہے ہیں اور ان کے نائب عاطف یحییٰ غوری ہیں۔
رپورٹ میں غزنی، ہلمند، قندھار، نمروز، پکتیکا اور زابل کے صوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یہ گروپ طالبان کے ساتھ مل کر معزول افغان حکومت کے خلاف لڑتا تھا۔
القاعدہ برصغیر میں 200 سے 400جنگجو ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، میانمار اور پاکستان سے ہے۔
رپورٹ میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) یا ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) کے نام سے مشہور ایک گروپ کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو چین میں شورش پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
اس گروپ کے شام میں ایک ہزار سے 3 ہزار کے درمیان جنگجو ہیں، جن میں سے زیادہ تر ادلب، حلب، لذیقیہ اور حما گورنریٹس میں واقع ہیں۔
اقوام متحدہ کی ٹیم نے رپورٹ کیا ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ / ترکستان اسلامک پارٹی کے اراکین اکثر واخان راہداری کا دورہ کرتے اور سنکیانگ میں جہاد کے لیے واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ گروپ القاعدہ، ٹی ٹی پی اور جماعت انصار اللہ کے ساتھ مل کر پاکستان، تاجکستان اور دیگر علاقوں میں چینی منصوبوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
رپورٹ میں انتباہ دیا گیا کہ داعش (آئی ایس) افغانستان میں افراتفری کا فائدہ اٹھا رہی ہے، جس کے تحت ایغور ٹیم کی قیادت میں ای ٹی آئی ایم/ٹی آئی پی کے جنگجوؤں کو بھرتی کرکے تنظیم کو وسعت دینے اور اس گروپ کے مقصد کی حمایت کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔
کچھ رکن ممالک نے اقوام متحدہ کی ٹیم کو بتایا کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ای ٹی آئی ایم/ٹی آئی پی کے جنگجوؤں کو طالبان کی جانب سے ان کی حمایت اور ان کی کاروائیوں کی روک تھام کی کوششوں کے تحت بدخشاں میں ان کے روایتی گڑھ سے چین کے ساتھ سرحد پر بغلان، تخار اور دیگر صوبوں میں منتقل کر دیا گیا۔
اس علاقے میں اس گروپ کے 200 سے 700 کے درمیان جنگجو موجود ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 13 اگست کو القاعدہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں طالبان کو ان کی فتح پر مبارکباد دی گئی، اس کے بعد سے القاعدہ نے حکمت عملی کے تحت خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے جوکہ ممکنہ طور پر بین الاقوامی شناخت اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے طالبان کی کوششوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی کوشش ہے۔
اقوام متحدہ کے مبصرین کا خیال ہے کہ القاعدہ اب تک اپنی قیادت کے سلسلہ وارخاتمے کے نقصان سے باہر نکل رہی ہے اور اس کے پاس بیرون ملک بڑے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
دوسری جانب اسامہ بن لادن کی سیکورٹی میں معاونت کرنے والے امین محمد الحق صام خان اگست کے آخر میں افغانستان میں اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔
اقوام متحدہ کےایک رکن ملک نے بتایا کہ اسامہ بن لادن کے بیٹے عبداللہ نے طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے اکتوبر میں افغانستان کا دورہ کیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری جنوری 2021 تک زندہ تھے تاہم ان کی صحت خراب تھی۔