پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا ساتواں سیزن بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ملتان سلطانز کا غلبہ جاری ہے، لاہور قلندرز اس کے بالکل پیچھے ہے جبکہ اسلام آباد ان دونوں سے شکستیں کھانے کے بعد اب درمیان میں لٹک گیا ہے۔
ساتویں سیزن میں آدھے میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہو رہے ہیں، جو حیران کُن طور پر کراچی کنگز کے لیے بھیانک ثابت ہورہے ہیں، کیونکہ کراچی اب تک کے اپنے تمام میچ ہار چکا ہے جبکہ پنجاب کی ٹیمیں ملتان اور لاہور ایک کے بعد دوسری کامیابی سمیٹ رہی ہیں۔
ملتان سلطانز کو تو ہرانے والا ابھی تک کوئی سامنے ہی نہیں آیا جبکہ لاہوریوں نے بھی خوب پَر نکال لیے ہیں۔ وہ سیزن کے آغاز پر ملتان ہی سے شکست کھانے کے بعد اب تک کوئی میچ نہیں ہارے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہوریوں کا جوش و خروش اس وقت عروج پر ہے اور وہ بہت شدت سے اپنی ٹیم کی لاہور آمد کے منتظر ہیں۔
لاہور، ارادے جن کے پختہ ہوں
اب تازہ ترین مقابلے میں قلندروں نے اسلام آباد جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف، بہت ہی مشکل صورتحال میں جو کارکردگی دکھائی ہے، اس کے بعد تو واقعی کہنا چاہیے کہ قلندروں کو سنجیدہ حریف سمجھا جائے اور کسی بھی ٹیم کو شاہین الیون کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔
نیلے شفاف آسمان تلے اور کھلی ہوئی دھوپ میں ہونے والے لاہور-اسلام آباد مقابلے میں ٹاس تو یونائیٹڈ نے جیتا، لیکن عادت سے مجبور ہوکر فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا، جو آخر میں ایک مرتبہ پھر غلط ثابت ہوا، جس طرح کہ پچھلے کئی میچوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہدف کا تعاقب کرنے والا ناکام ہو رہا ہے۔
4 اوورز کی چاندنی
بہرحال، کھیلنے کی دعوت ملی تو لاہور نے بہت عمدہ آغاز لیا۔ ابتدائی 7 اوورز میں 77 رنز بننے کے بعد لگ رہا تھا کہ لاہور ایک بڑا مجموعہ حاصل کرنے کے لیے بنیاد تیار کرچکا ہے۔ لیکن یہاں نجانے کس کی نظر لگ گئی، عبد اللہ شفیق کی وکٹ گری اور صرف 15 رنز کے اضافے سے لاہور کے ایک، دو نہیں پورے 5 بلے باز میدان سے واپس آگئے تھے۔ 4 اوورز کی چاندنی کے بعد چند ہی اوورز میں لاہور کا پورا مڈل آرڈر ہی لپیٹ دیا گیا۔
یہاں سیزن میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے انگلش بلے باز ہیری بروک کے 37 اور پھر ڈیوڈ ویزے اور راشد خان کی چھوٹی موٹی اننگز نے کسی نہ کسی طرح اسکور کو 174 رنز تک پہنچا دیا، یعنی اتنے رنز جو بظاہر اسلام آباد کو روکنے کے لیے کافی نظر نہیں آرہے تھے۔ 13 اوورز میں 100 رنز کا اضافہ بھی نہیں ہو پایا جو لاہور کے لیے کافی پریشان کن بات تھی۔
شاداب خان، ایک مرتبہ پھر!
اب 175 رنز ہرگز ایسا ہدف نہیں تھا جس پر لاہور مطمئن ہوکر کھیلتا۔ ایلکس ہیلز اور پال اسٹرلنگ کی وکٹیں جلد ملنے کے بعد کولن منرو اور شاداب خان کو آؤٹ کرنا عذاب ہوگیا۔
شاداب تو اس سیزن میں ایک اچھے باؤلر کے ساتھ ساتھ منجھے ہوئے بلے باز کے روپ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان کی بیٹنگ میں سب سے قابلِ دید لمحہ وہ تھا جب انہوں نے حارث رؤف کی دو طوفانی گیندوں کو پیچھے کی جانب کھیل کر ایک چوکا اور ایک چھکا حاصل کیا۔
صورتحال مکمل طور پر اسلام آباد کی گرفت میں تھی۔ 42 گیندوں پر یعنی 7 اوورز میں صرف اور صرف 52 رنز کی ضرورت تھی اور 8 وکٹیں بھی باقی تھیں۔
یہ 2 اوورز میں کیا ماجرا ہوگیا؟
لیکن یہ ٹی20 ہے جناب! اس میں ایک، دو اوورز کس طرح میچ کا نقشہ بدل دیتے ہیں، اس کا اندازہ یہاں اچھی طرح ہوگیا۔ پہلے راشد خان نے ایک بہت اچھا اوور کروایا اور اس کے بعد شاہین آفریدی خود آئے اور ایک اور ایسا اوور پھینکا جس میں کوئی چوکا تک نہیں لگا۔ یہاں دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن شاداب نصف سنچری مکمل کرتے ہی راشد خان کے ہتھے چڑھ گئے۔ اگلے اوور میں حارث رؤف نے کولن منرو کو بھی آؤٹ کردیا اور یوں دو نئے بلے بازوں کو کریز پر آنا پڑا۔
جب 3 اوورز میں 29 رنز کی ضرورت تھی تو آصف علی اور اعظم خان کو کریز پر دیکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اسلام آباد یہاں سے ہار جائے گا۔ لیکن داد دینا پڑے گی شاہین آفریدی کو جنہوں نے بہت عمدہ 18واں اوور پھینکنے کے بعد گیند اہم ترین 19ویں اوور کے لیے حارث رؤف کو تھمائی۔ حارث نے دونوں جارحانہ بلے بازوں کے خلاف بہت اچھی باؤلنگ کی لیکن وہ آصف علی کو ایک چھکا حاصل کرنے سے نہ روک پائے۔
زمان خان کا زمانہ آگیا!
آخری اوور میں درکار 12 رنز کا دفاع تو کرنا تھا لیکن سب اہم باؤلرز کے اوورز تمام ہوچکے تھے اور گیند کشمیری نوجوان زمان خان کو تھمائی گئی، جنہوں نے صرف اپنے کیریئر کا ہی نہیں بلکہ اس سیزن کا بھی سب سے بہترین اوور پھینکا۔ کوئی گیند دھیمی، کوئی انتہائی تیز، کوئی یارکر، کوئی اوپر کو اٹھتی ہوئی، انہوں نے اعظم خان اور آصف علی کو ایک گیند پر بھی چین نہ لینے دیا اور اوور میں صرف 3 رنز دے کر سب کو حیران کردیا۔
توقعات کے بھاری بوجھ تلے دن کا اہم ترین اوور پھینکنے، آصف علی کی قیمتی وکٹ لینے پر اور لاہور کو ایک یادگار کامیابی دلانے پر زمان خان کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا، اور وہ بلاشبہ اس کے حقدار بھی تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ اب لاہور قلندرز کے قدم مکمل طور پر جم چکے ہیں۔ ان کے تمام کھلاڑی جان لڑاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بیٹنگ اور باؤلنگ میں بھی اور فیلڈ میں بھی۔ یہ لاہور کے ان شائقین کے لیے بہت اچھی خبر ہے، جو قلندروں کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔
دن کا دوسرا مقابلہ
ملتان کے مہان سلطان!
دوسرا مقابلہ تھا ملتان سلطانز کا پشاور زلمی کے ساتھ۔ پشاور نے مسلسل 2 شکستیں کھانے کے بعد کراچی کنگز کو ہرا کر اپنا سانس تو بحال کرلیا تھا لیکن ملتان کو زیر کرنے کے لیے انہیں ضرورت تھی کچھ بہت ہی خاص کرنے کی، لیکن وہ ایسا کر نہیں پائے۔ حالانکہ ٹاس بھی جیتا، لیکن لاہور کے ہاتھوں شکست سے سبق نہیں سیکھا کہ جہاں انہوں نے پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کیا تھا اور 200 رنز کے تعاقب میں بُری طرح ناکام ہوئے تھے۔ یہاں بھی یہی غلطی دہرائی اور ویسا ہی نتیجہ پایا۔
رضوان، اب تو عادت سی ہے
محمد رضوان اور شان مسعود نے پاور پلے میں ہی 61 رنز لوٹ کر ثابت کردیا کہ پشاور کا فیصلہ غلط تھا۔ دونوں نے پہلی وکٹ پر 85 رنز بنائے جو دونوں کی بہترین فارم کو ظاہر کر رہے ہیں۔ صہیب مقصود بھی آئے اور ابھی رنگ جمانا شروع ہی کیا تھا کہ عثمان قادر کی ایک خوبصورت گیند نے ان کے ارادے خاک میں ملا دیے۔
یہاں پر ٹم ڈیوڈ کی آمد ہر گزرتے اوور کے ساتھ میچ کو پشاور کی پہنچ سے کہیں دُور لیتی چلی گئی۔ آخری اوور میں خوشدل شاہ نے بھی وہاب ریاض کو 3 چھکے رسید کرکے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے۔ انہوں نے بالکل وہ کردار ادا کیا جو پچھلے میچ میں آصف علی کو ادا کرنا چاہیے تھا، لیکن وہ کر نہیں پائے۔ بہرحال، رضوان 53 گیندوں پر 82 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ ٹم ڈیوڈ صرف 19 گیندوں پر 51 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ میدان سے واپس آئے۔
وہاب ریاض کے آخری اوور کے 24 رنز ملا لیں تو ان کے 4 اوورز میں کُل 55 رنز لوٹے گئے، جو پشاوری باؤلرز کی حالت ظاہر کرتا ہے۔
ڈبل نیلسن کے تعاقب میں
ملتان کے ڈبل نیلسن یعنی 222 رنز کا پشاور کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاہنواز ڈاہانی جو پچھلے میچ میں باہر بیٹھے تھے، آج واپس آئے اور آتے ہی تہلکہ مچا دیا۔ اپنی دوسری ہی گیند پر کامران اکمل کو آؤٹ کیا اور پھر پاور پلے ختم ہونے سے پہلے حیدر علی کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کرلی۔
اس کے بعد پشاور کے لیے رنز تھم سے گئے۔ کہاں 5 اوورز میں 55 رنز تھے اور پھر 10 اوور میں بڑی مشکل سے 84 تک پہنچے کہ جہاں عمران طاہر نے گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ انہوں نے پہلے شعیب ملک کی قیمتی ترین وکٹ لی اور پھر اپنے اگلے اوور میں پشاور کو دہرا دھچکا پہنچایا اور مسلسل 2 گیندوں پر شین ردرفرڈ اور حضرت اللہ زازئی کو ٹھکانے لگا دیا۔
دن کی خوبصورت ترین گیند
دن کی سب سے دلکش گیند عباس آفریدی نے پھینکی، جنہوں نے وہاب ریاض کو ایک انتہائی خوبصورت دھیمی گیند پر کلین بولڈ کیا اور ساتھ ہی پشاور کی امیدوں کا چراغ بجھنے لگا۔ بین کٹنگ نے بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق مارنا تو شروع کیا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
کہیں نیٹ رن ریٹ پھنسا نہ دے
57 رنز کی بدترین شکست نے پشاور کے نیٹ رن ریٹ کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر سب سے کم رن ریٹ زلمی کا ہی ہے۔ اگر آخر میں اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے کا معاملہ نیٹ رن ریٹ پر گیا تو پشاور کے لیے پریشانی ہوسکتی ہے۔ بہرحال، ابھی سیزن کا آدھے سے زیادہ سفر باقی ہے۔
اس وقت ملتان سلطانز اپنے تمام پانچوں مقابلوں میں کامیابی کے ساتھ سب سے اوپر ہے جبکہ لاہور 4 میچوں میں 3 کامیابیوں کے ساتھ دوسری پوزیشن پر براجمان ہے۔ اسلام آباد اپنے 4 میں سے آدھے میچ ہارا ہے اور 4 ہی پوائنٹس کے ساتھ تیسری پوزیشن پر ہے جبکہ پشاور زلمی کے بھی پوائنٹس اتنے ہی ہیں لیکن بھیانک نیٹ رن ریٹ اس کے لیے پریشان کُن بات ہے۔ کوئٹہ کے لیے یہ سال بھی اب تک مایوس کن ہے کیونکہ وہ اپنے 4 میچوں میں صرف ایک کامیابی حاصل کر پایا ہے جبکہ کراچی کنگز کا تو ابھی تک کھاتہ ہی نہیں کھلا کیونکہ وہ اپنے چاروں میچ ہار چکا ہے۔
اب دو دنوں کی بات ہے کہ میچ کراچی سے لاہور منتقل ہوجائیں گے۔ نئے مقام پر نیا ماحول اور نئے حالات ٹیموں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ لاہور کس کس کے لیے نیک شگون ثابت ہوتا ہے۔