پچھلے مہینے ایک دہائی طویل قانونی جنگ اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت میں ختم ہونے کے بعد ایک ہزار 2 سو فلسطنیوں کو مقبوضہ ویسٹ بینک کے خطے کو آرمی فائرنگ زون بنانے کے سبب جبری بے دخلی کے خطرات کا سامنا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق فیصلے سے اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بعد قبضہ کرنے سے اب تک سب سے بڑی نقل مکانی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
رہائشیوں نے جگہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، انہیں امید ہے کہ ان کی مزاحمت اور عالمی دباؤ کے سبب اسرائیل گھروں سے بے دخل کرنے سے باز رہے گا۔
الفخیت کی رہائشی ودہ ایوب ابو سبھا نے کہا کہ وہ ہماری جگہ کو نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے خالی کرانا چاہتے ہیں، یہ علاقہ فلسطینی چرواہوں کی وجہ سے مشہور ہے ان کا اس زمین کے ساتھ قدیمی تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے جگہ نہیں چھوڑیں گے۔
1980 میں اسرائیل نے اس علاقے کو ملٹری زون قرار دیا جسے ‘فائرنگ زون 918’ کہا جاتا ہے، عدالت میں اسرائیلی قابض اتھارٹی نے کہا کہ 3 ہزار ہیکٹرز یا 7 ہزار 400 ایکڑوں پر مشتمل یہ اراضی اسرائیل اور ویسٹ بینک کی باونڈری پر ہونے کی وجہ سے فوجیوں کی تربیت کے لیے حساس اہمیت کی حامل ہے جبکہ فلسطینی چرواہے تو محض موسمی طور پر جانوروں کو چرانے آتے ہیں۔
ابو سبھا نے بجھی آواز سے چند بچ جانے والے خیموں سے کہا کہ یہ سال شدید غم کا رہا ہے، ان خیموں میں صرف ایک بلب جل رہا تھا۔
یہاں کے لوگ ‘ساؤتھ ہیبرون ہلز’ میں روایتی طور پر زیر زمین غاروں میں رہتے ہیں، پچھلی دو دہائیوں سے انہوں نے زمین کے اوپر چھوٹے کمرے بھی بنانے شروع کیے ہیں۔
ابو سبھا نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز سالوں سے نئی تعمیرات کو مسمار کررہی ہیں، اب ان کے پاس عدالت کی حمایت بھی حاصل ہے جس کے سبب رفتار میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اہلِ خانہ کا سامان ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے کیونکہ فوجی بلڈوزر کے ساتھ اور ڈھانچوں کو گرادیا۔
مقدمے کے دوران زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ اس علاقے میں رہنے والے فلسطینی عارضی مکین ہیں یا مستقل رہائشی ہیں۔
اسرائیلی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہاں کے رہائشی یہ دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ علاقے کو فائرنگ زون قرار دیے جانے سے قبل یہاں کے مستقل رہائشی ہیں، اس کا انحصار 1985 کی ایک کتاب کے اقتباسات اور فضائی تصاویر پر ہے جس کا دونوں فریقوں نے ثبوت کے طور پر حوالہ دیا۔
کتاب کا ٹائٹل ‘ماؤنٹ ہیبرون کے غاروں میں زندگی’ ہے جس کے مصنف اسرائیلی ماہر بشریات یاکوف ہاواکوک ہیں، جنہوں نے ‘میسیفر یاتا’ میں فلسطینی چراہوں اور کسانوں کی زندگی پر تین سال تحقیق کی۔
یاکوف ہاواکوک نے رائٹرز کو تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے رہائشیوں کے وکیل کی درخواست پر ماہرانہ رائے جمع کروانے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی وزارت دفاع نے انہیں اس سے منع کر دیا جہاں پر وہ اس وقت ملازمت کرتے تھے۔
بین الاقوامی تنقید
یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے عدالتی فیصلے کی مذمت کی ہے اور اور اسرائیل پر وزر دیا ہے کہ لوگوں کے گھر مسمار کرنے اور انہیں بے دخل کرنے سے باز رہیں۔
یورپی یونین کے ترجمان نے کہا فوجی زون بنانے کا معاملہ لوگوں کو ان کی جگہ سے بے دخل کرنے کا کافی جواز نہیں ہو سکتا۔
1981 کے وزارتی اجلاس میں سابق وزیر زراعت ایرل شیرون جو بعد میں وزیراعظم بنے، کی طرف سے مقامی فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے لیے فوجی زون کو پھیلانے کی تجویز دی گئی تھی۔
اسرائیلی فوج نے رائٹرز کو بتایا کہ متعدد متعلقہ آپریشنل تحفظات کے سبب اس علاقے کو فائرنگ زون قرار دیا گیا تھا تاہم فلسطنیوں نے اس حکم نامے کی خلاف وزری کرتے ہوئے کئی سالوں سے بغیر اجازت بلڈنگیں تعمیر کی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل نے ‘سی ایریا’ کے تقریباً 30 فیصد علاقے کو ملٹری فائرنگ زون کے طور پر نشان لگایا ہے، جس کے سبب کمزور فلسطینی کمیونٹیوں میں سے 38 کو جبری نقل مکانی کے خطرات لاحق ہیں۔
دوسری طرف علاقے میں بستیوں کی توسیع جاری ہیے، جس سے فلسطینیوں کی نقل و حرکت ، کھیتی باڑی کرنے اور بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے دستیاب جگہ مزید محدود ہو گئی ہے۔
محمود علی نے ایک اور بستی کے خطرے سے دوچار ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے قریبی باغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے زیتون کے درخت میرے ہیں ہم کیسے یہ جگہ چھوڑ سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ میں نے زیتون کے 3 ہزار500 درخت دو سال پہلے لگائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم انتظار کریں گے اور دوبارہ تعمیرات کریں گے، یہ جگہ چھوڑنے سے بہتر ہے کہ مر جائیں۔