اکثر پاکستانیوں میں کورونا وائرس کی وبا کے خلاف مختصر عرصے کے لیے قوت مدافعت بڑھی ہے لیکن حال ہی میں سامنے آنے والا کورونا وائرس کا نیا ویرینٹ ’اسٹیلتھ اومیکرون (بی اے ٹو)‘ اسکینڈی نیوین ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور جلد پاکستان بھی پہنچ جائے گا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 3 ہزار 914 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ عالمی وبا سے 47 افراد جان کی بازی ہار گئے، ملک میں مثبت کیسز کی شرح 7.1 فیصد ہے جبکہ ایک ہزار 716 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
اومیکرون کورونا وائرس کا وہ ویرینٹ ہے جو تیزی سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے، پاکستان میں پہلی بار اس ویرینٹ کی تشخیص گزشتہ سال دسمبر ہوئی، جس کے باعث کیسز میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رواں سال 27 جنوری کو ملک میں 8 ہزار 183 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، ایک دن میں ریکارڈ ہونے والی یہ تعداد عالمی وبا کے آغاز سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔
تاہم روز رپورٹ ہونے والے کیسز میں فروری کے پہلے ہفتے سے کمی دیکھی گئی ہے۔
کورونا وائرس کی سائنٹیفک ٹاسک فورس کے رکن پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ کیسز میں اچانک کمی کی متعدد وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی بڑے پیمانے پر آبادی میں وبا سامنے آتی ہے انسانی جسم بیماری کے خلاف مختصر عرصے کے لیے اینٹی باڈیز بنانا شروع کردیتا ہے اسے سب کلینکل یا اسیمٹومیٹک ڈیزیز بھی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شہری اس سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوگی یا انہیں اعلامات محسوس نہیں ہوں گی اسے چھپی ہوئی قوت مدافعت کہا جاتا ہےجس کی وجہ سے معاشرے میں بیماری یا کیسز میں اچانک کمی آئی ہے۔
دیگر وجوہات دریافت کرنے پر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ کیسز میں اچانک کمی کی ایک بڑی وجہ انڈور اور شادیوں کی تقریبات پر پابندی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ اومیکرون کے ارتقا کے بعد لوگوں نے ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانا شروع کردی ہیں، اور بوسٹر شاٹس بھی لگوا رہے ہیں، شہریوں کو یہ نہیں بھولناچاہیے کہ بیماری کی شرح کم ہوچکی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے کیونکہ کورونا وائرس دوبارہ بڑھ سکتا ہے۔
جامعہ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے مزیدکہا کہ ’اسٹیلتھ اومیکرون (بی اے ٹو)‘ ناروے اور سویڈن میں رپورٹ ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’ ہم نہیں جانتے کہ یہ کتنا متعدی اور تیزی سے پھیلنے والا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا گلوبل ولیج ہے اور یہاں ہر ویرینٹ پھیلتا ہے، ممکن ہے کہ مستقبل میں نیا ویرینٹ سامنے آجائے۔