اٹک ایک تاریخی شہر ہے جہاں دریائے کابل کا مشرقی سرا ختم اور اس کا ملن دریائے سندھ سے ہوتا ہے۔
خیبرپختونخوا کی سرحد پر واقع یہ ضلع ہندو کش پہاڑوں سے گزرتے دریائے کابل اور اس کی شاخوں کے بہاؤ کی مدد سے وسطی ایشیا تک بننے والی قدرتی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے۔ حسن ابدال میں واقع سکھوں کے مقدس مقام گردوارا پنجہ صاحب سمیت یہ ضلع اپنے 40 تاریخی مقامات کے باعث مذہبی اور ثقافتی اہمیت رکھتا ہے۔
اٹک کی شہرت کی دوسری وجہ کامرا ایروناٹیکل کمپلیکس اور سنجوال آرڈنینس فیکٹریاں ہیں جو مقامی باشندوں کو روزگار کے مواقع اور پاک فوج اور پاک فضائیہ کو دفاعی ساز و سامان، خدمات اور گولہ بارود فراہم کرتی ہیں۔ ان فیکٹریوں میں چند سیمنٹ، ٹیکسٹائل، انجینئرنگ مصنوعات اور شیشے کی اشیا تیار کرنے والے مینوفیکچرنگ یونٹس بھی موجود ہیں۔
2017ء میں جھنڈیال کے مقام پر تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کی دریافت نے اس علاقے کی اہمیت کو مزید بڑھایا جبکہ ایک آئل ریفائنری بھی یہاں دہائیوں سے کام کر رہی ہے۔
شمال میں خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور اور سوابی، مشرق میں راولپنڈی، جنوب میں چکوال، جنوب مغرب میں میانوالی، مغرب میں کوہاٹ اور شمال مغرب میں نوشہرہ سے جڑے اس شہر کو برطانوی حکومت نے 1904ء میں ضلعے کا درجہ دیا تھا۔ درحقیقت اس شہر کا نام سر کیمبل سے منسوب کرتے ہوئے کیمبل پور رکھا گیا تھا۔ سر کیمبل نے قدیم اٹک شہر کے قریب ایک نیا شہر آباد کیا تھا۔ تاہم 1978ء میں اس شہر کا نام ایک بار پھر اٹک رکھ دیا گیا۔
ضلعے میں اعوان، پٹھان، گھیبہ، جودرا، کھٹڑ، مغل، شیخ، سید اور راجپوت ذاتوں یا قبائل کے لوگوں کی کثیر آبادی مقیم ہے۔ راجپوت کے علاوہ اکثر و بیشتر قبائل خود کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے حملہ آوروں کی نسل سے بتاتے ہیں۔
1008ء میں محمود غزنوی اور راجپوتوں کے درمیان جنگ حضرو اور اٹک کے درمیان دریائے سندھ کے پہلو میں واقع چھچھ نامی میدان پر لڑی گئی تھی۔ جنگ کا اختتام راجپوتوں کے اتحادی لشکر کی شکست کے ساتھ ہوا اور یوں برِصغیر افغانستان سے آئے ہوئے مسلمان حملہ آوروں کے زیرِ قبضہ آگیا۔
6 ہزار 856 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ ضلع سبزے اور درختوں کی کمی کی وجہ سے عموماً بنجر تصور کیا جاتا ہے اور یہ پہاڑیوں اور میدانوں کا امتزاج ہے۔ شمال مغرب اور جنوب کی طرف اس شہر کی زمین چٹانی ہے۔ پہاڑوں کی بات کی جائے تو ان میں کالا چٹا نامی پہاڑی سلسلہ چکنی مٹی، جپسم، بیٹونائٹ، آتشی مٹی، چونے پتھر، سلیکا ریت اور آہنی دھات جیسے معادنیاتی وسائل سے مالامال ہے۔
کاشت کاروں کی اکثریت چھوٹے زمینداروں پر مشتمل ہے۔ 79 فیصد گھرانوں میں سے ہر ایک گھرانہ ساڑھے 7 ایکڑ سے کم زمین کا مالک ہے۔ ان میں سے تقریباً 83 فیصد خود ہی اپنی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔
7 لاکھ 78 ہزار 431 ایکڑ پر مشتمل قابلِ کاشت زمین میں سے صرف 43 ہزار 818 ایکڑ یا محض 2.53 فیصد قابلِ کاشت زمین کو نہر سیراب کرتی ہے۔ بقیہ علاقہ خشک ہے اور اس کا انحصار برساتوں پر ہوتا ہے۔ ضلعے میں بے کار قابلِ کاشت زمین کا رقبہ ایک لاکھ 81 ایکڑوں پر مشتمل ہے جبکہ ایک لاکھ 60 ایکڑ یا 9.45 فیصد سے زائد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔
اٹک میں گندم اور چنے کی پیدوار سب سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ مونگ پھلی، تِل کے بیج، مونگ، ماش اور چنے کی دالوں کی فصلیں بھی اگائی جاتی ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی پیداوار قومی تو چھوڑیے صوبائی کموڈٹی مارکیٹ میں ضلعے یا اس کے مقامیوں کے حصے کو پورا نہیں کرپاتی۔ فوج میں شمولیت یا بیرون ملک نہ جاپانے والوں کے لیے زراعت ہی واحد ذریعہ معاش رہ جاتا ہے۔ یہاں فصلوں کی اوسط پیداوار صوبائی اوسط سے بہت کم ہے۔
مثلاً گزشتہ سال یہاں 4 لاکھ 97 ہزار ایکڑ کی اراضی پر گندم اگایا گیا تھا اور پنجاب کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق جہاں باقی صوبے میں گندم کی اوسط پیداوار 32 من ایکڑ رہی وہیں اٹک کی اوسط پیداوار 17.8 من فی ایکڑ ریکارڈ کی گئی۔
28 ہزار ایکڑ پر اگائی جانے والی مکئی کی پیداوار گزشتہ سال 29.89 من فی ایکڑ کے ساتھ کافی بہتر رہی، کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے مکئی کی پیداوار 12.90 من تک ہی محدود رہی تھی لیکن یاد رہے کہ صوبائی اوسط 80 من فی ایکڑ سے زیادہ ہے۔
چونکہ اس علاقے میں زراعت بڑی حد تک موسمی مزاجوں پر منحصر ہے اس لیے ناقص اور غیر مستقل پیداوار زراعت میں عدم توجہی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ علاقہ بڑی حد تک برساتی پانی، کسی حد تک قدرتی آبی وسائل اور کسی حد تک ٹیوب ویل پر منحصر ہے۔
ضلعے میں اس وقت 32 ہزار کھلے کنویں اور ٹیوب ویلز فعال ہیں۔ تحصیل پنڈی گھیب اور جنداس میں چھوٹے طاسوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لہٰذا یہاں برساتی پانی سے کاشت کاری کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ علاقے کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 14 دائمی چشموں اور نالوں، 15 چھوٹے اور 30 منی ڈیم، 200 تالاب بنانے کے علاوہ لفٹ آبپاشی کی 500 اسکیموں پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈرپ ایریگیشن، اسپرنکل (چھڑکاؤ) ایریگیشن اور روف ہارویسٹنگ (چھٹ پر کھیتی) کی ٹیکنالوجی بھی متعارف کروائی جا رہی ہے۔
اس علاقے کی سوغات تصور کی جانے والی مونگ پھلی کی فصلیں بڑی حد تک غائب ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ مونگ پھلی کی پرانی اجناس ہیں جو تجارتی لحاظ سے کم آمدن کا باعث بنتی ہیں۔ ان کی جگہ آلو کی فصلیں لیتی جا رہی ہیں جن کا رقبہ گزشتہ 3 دہائیوں میں 2 ہزار 380 سے بڑھ کر 16 ہزار ایکڑ تک پہنچ چکا ہے۔
چند افراد رسیلے پھل (citrus)، امرود اور خوبانی کے باغات لگانے کا تجربہ بھی کر رہے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ تجربہ ایک ہزار 300 ایکڑ کے رقبے پر کیا جا رہا ہے۔ آلو کے علاوہ سبزیاں سب سے زیادہ ضلع کی حضرو تحصیل اور گرد و نواح کے شہری مراکز میں اگائی جاتی ہیں۔ ان سبزیوں میں پھول گوبھی، پیاز، لہسن، لوکی، بینگن اور مٹر شامل ہیں۔
کئی ایکڑوں پر محیط بے کار قابلِ کاشت زمین سے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن زراعت کو تجارتی لحاظ سے منافع بخش بنانے کے لیے مطلوبہ زمین کی پیوستگی (land integration) کی کوششیں نظر نہیں آتیں۔ اگر یہ کوششیں نہ کی گئیں تو زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اسی طرح گندم اور مکئی کی فصلوں پر ضائع ہوتے رہیں گے اور اس کا کسی کو فائدہ بھی نہیں ہوگا۔
شعیب وردغ نامی مقامی زمیندار کہتے ہیں کہ زرعی حکام کو چاہیے کہ وہ کاشتکاروں کو منافع بخش فصلوں کی کاشت کی طرف راغب اور اس حوالے سے ان کی تربیت کے لیے بڑی سطح پر ‘کاشتکار تعلیمی مہم’ کا آغاز کرے تاکہ وہ گندم اور مکئی کی فصلوں کو اگانے کے صدیوں سے جاری تسلسل سے باہر آسکیں۔ حکومت کاشت کاروں کو ٹنل فارمنگ سسٹم کے تحت سبزیاں اگانے کی تربیت فراہم کرے اور چھوٹے زمینداروں کو کم وسائل کے ساتھ اپنی زمین کی پیداوار اور آمدن بڑھانے کے قابل بنانے کے لیے مطلوبہ ساز و سامان کو رعایتی قیمتوں پر فراہم کرے کیونکہ نہ صرف دریائے کابل اور سندھ کے کنارے بلکہ پہاڑیوں کے درمیان موجود زمین بھی ذرخیز ہے اور کئی ایکڑوں کی اراضی کو ضلع کے مختلف حصوں میں موجود درجنوں جھیلیں اور ڈیم سیراب کرتے ہیں۔
حضرو تحصیل میں محمد عمر نامی مزارع ان کو درپیش مسائل کی جانب حکومتی عدم دلچسپی کی شکایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ مسلسل 3 برسوں سے ژالہ باری کے باعث ان کی فصلیں برباد ہو رہی ہیں لیکن علاقے کو کبھی بھی آفت زدہ قرار نہیں دیا گیا اور اسی وجہ سے کسانوں کو حکومت سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملتا۔
ان کے مطابق کھاد کی خریداری پر چند ہزار روپے کی سبسڈی سے چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زراعت کو پائیدار ذریعہ معاش میں بدلنا اور دیہی غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری بیج اور کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے دیگر ساز و سامان کی رعایتی داموں پر فراہمی کو یقینی بنائے۔
چونکہ زرعی شعبہ محرومیوں کا شکار ہے لہٰذا اس کے ذیلی شعبہ جات کی حالت بھی ناقص ہے۔
2018ء کے لائیو اسٹاک سروے کے مطابق ضلع میں بڑے جانوروں کی تعداد 5 لاکھ سے کم یعنی (3 لاکھ ایک ہزار 648 گائیں اور 75 ہزار 837 بھینسیں) ہے اور اسی طرح چھوٹے جانوروں (3 لاکھ 6 ہزار 423 بکریاں اور ایک لاکھ 70 ہزار 408 بھیڑ) کی تعداد بھی 5 لاکھ سے کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اٹک میں لائیو اسٹاک کے اعداد و شمار بھی متاثر کن نہیں ہیں۔
لائیو اسٹاک سے منسلک ایک مقامی افسر نے بتایا کہ ڈیری کے شعبے میں تھوڑی بہت سرمایہ کاری تو ہوئی ہے لیکن کمرشل سطح پر افرادی قوت اور چارے کی عدم دستیابی کے باعث اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر (ایکسٹینشن) شکیل احمد کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران گرینڈ ٹرنک روڈ اور ایبٹ آباد روڈ سے ملحقہ شہری مراکز کے گرد و نواح میں جگہ جگہ تعمیر ہونے والی ہاؤسنگ اسکیموں کے باعث چارے کی فصل 10 ہزار 400 ایکڑ سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ایکڑ تک محدود ہوگئی ہے۔ اگرچہ چند فارمز اب بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن تجارتی لحاظ سے زیادہ منافع بخش ثابت نہیں ہو رہے۔ تاہم سرکاری سبسڈی کی بدولت بیک یارڈ پولٹری (یا گھریلو سطح پر مرغی پالنے) کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
شعیب وردغ کہتے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ڈیری فارمنگ کی جانب راغب کرنے لیے آسان شرائط پر قرض فراہمی کے منصوبے متعارف کروائے جائیں اور مالیاتی اداروں کو مقامی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مطلوبہ مصنوعات و خدمات کے ساتھ آگے آنا چاہیے۔