بُرے رویوں کے باعث بہت سے ‘عیادت داروں’ کا آنا اُن کے نہ آنے سے بہتر معلوم ہوتا ہے رضوان طاہر مبین
اردو کے معروف افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم نے لکھا تھا کہ ‘مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ!’
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اب صورتحال ایسی ہے کہ بہت سے علیل یا بیمار احباب یہ کہنے لگے ہیں کہ ‘مجھے میرے ‘عیادت داروں’ سے بچاؤ…!’
آخر کیا وجہ ہے کہ بیماری کے دوران کسی اپنے کا ملنے کے لیے آنا، خیریت دریافت کرنا اور دل جوئی کرنا الٹا بیمار ہی پر گراں گزرے، لیکن کیا کیجیے، ہر ایک کے حلقے میں کچھ نہ کچھ ایسے ‘نمونے’ پائے ہی جاتے ہیں، جن کے آنے سے ان کا نہ آنا بدرجہا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت بے ساختہ یہ جی چاہتا ہے کہ ایسے عیادت کرنے والوں کے منہ پر ہی کچھ ‘تواضع’ کردی جائے، کیونکہ وہ نہ اس موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ادراک رکھتے ہیں کہ وہ اس بار کسی عام میل ملاقات اور دعوت میں موجود نہیں، بلکہ باقاعدہ ایک بیمار کی دل جوئی کے لیے تشریف لائے ہیں۔
ان کا مخاطب ناسازیٔ طبیعت کے باعث صاحبِ فراش ہے، جس کا مزاج ممکن ہے کہ پہلے سے بہتر ہو، لیکن وہ فی الحال ایک تکلیف سے گزرا ہے یا گزر رہا ہے۔ اس کی زندگی اور معمولات شدید متاثر ہیں، اور یہ سب اس کے لیے ایک صدمے، پریشان کُن اور فکر کا باعث ہے۔ اس لیے اسے بہت ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔
اس مقصد کے لیے ہم آپ کو عیادت کرنے کے لیے 9 ایسی باتوں کے بارے میں توجہ دلا رہے ہیں جن سے متعلق ہم کم ہی سوچتے ہیں۔
عیادت کے آداب ملحوظ خاطر رکھیے
سب سے پہلے تو ‘عیادت داروں’ کو چاہیے کہ وہ اگر کسی کی عیادت کے لیے جا رہے ہیں، تو یہ دھیان رکھیں کہ یہاں کسی بھی قسم کی ‘بے ادبی’ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پہلے چاہے آپ مریض سے کس قدر بے تکلف رہے ہوں، لیکن اب ایک بالکل مختلف صورتحال ہے، بیماری یا کسی حادثے کے سبب اس وقت وہ شخص ایک بالکل مختلف کیفیت میں ہے، تو ان کی صحتیابی تک ذرا سے پرانے طور طریقوں کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ دیجیے، جن میں سب سے پہلے آپ کو ان کے پاس آنے کے لیے وقت کا بہت خیال رکھنا ہے۔
یعنی آپ کو اچھی طرح خبر ہو کہ عیادت کے لیے کس وقت جانا زیادہ بہتر رہے گا۔ اس جان کاری کے بنا آپ کبھی کسی کی عیادت کے لیے بالکل بھی دستک نہ دیجیے۔ مناسب ہوگا کہ اچھی طرح یہ پوچھ لیجیے کہ مریض ہی نہیں اس کے اہلِ خانہ یا تیمار داروں کو کس وقت سہولت رہے گی۔ ہرچند کہ آپ عام دنوں میں رات بے رات اور بغیر بتائے ہی ان کے دروازے پر پہنچ جاتے ہوں، لیکن آج آپ کو یہ سارا خیال رکھنا پڑے گا۔ یہ مریض اور اس کے گھر والوں، دونوں کے لیے بہت اچھا رہے گا۔ آپ کا بے وقت دروازہ کھٹکھٹانا اہلِ خانہ کے لیے زحمت اور مریض کے آرام میں خلل کا باعث بن سکتا ہے اور یقیناً آپ اپنے کسی بھی پیارے لیے یہ ہرگز نہیں چاہیں گے۔
بیمار کے پاس جانے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ ملاقات کے دورانیے کا خاص خیال رکھا جائے، کوشش کیجیے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیں، کیونکہ ممکن ہے مریض اپنے بستر سے اٹھ کر جانے میں دشواری محسوس کرے اور مروت اور وضع داری میں آپ کو جانے کے لیے بھی نہ کہہ سکے۔
بہت سے عیادت کرنے والے مریض سے ملنے آتے ہیں، تو پھر بہت دیر تک بیٹھے رہ جاتے ہیں، کچھ اتنے ‘ظالم’ ہوتے ہیں کہ مریض کے کمرے میں ہی بے تکلفی سے سگریٹ تک جلا لیتے ہیں اور مریض تو مریض، اس کے اہلِ خانہ بھی عجیب آزمائش سے دوچار ہوجاتے ہیں کہ اب مہمان کو کہیں تو کیا کہیں کہ ‘انکل، پہلے ایسا کرتے تو آپ کو کوئی نہیں روکتا، لیکن آج تو کم از کم اس سے احتراز کیجیے‘۔
آپس میں گفتگو سے گریز
جب آپ کسی مریض کی عیادت کے لیے گئے ہوں، تو آپ سے یہ بات کسی بھی لمحہ نہ چُوکے، کہ آپ کی ساری توجہ اور گفتگو کا مرکز آپ کا مریض ہی ہو۔ کوشش کیجیے کہ وہاں آپ زیادہ تر وقت اسی سے مخاطب رہیں اور اسی کی باتوں کا جواب دیں۔
بعضے وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم مریض کے پاس جاکر اور کوئی نئی بات یا خبر جان کر یکسر بھول جاتے ہیں کہ یہاں دراصل ہم کسی کی خیر خیریت دریافت کرنے کو آئے ہوئے ہیں، پھر ہم کسی شناسا یا رشتے دار کی شادی، کسی کی منگنی اور کسی بات کی مزید تفصیلات ٹٹولنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ امر نہایت غیر اخلاقی ہے۔ ایسے موقع پر خود پر قابو رکھتے ہوئے یہ گفتگو پھر کسی اور وقت کے لیے رکھ لینی چاہیے، چاہے کتنی یہ ہی اہم، انوکھی اور نئی بات کیوں نہ ہو۔
آپ حوصلہ دینے آئے ہیں
آپ اس بات کا دھیان رکھیے کہ آپ جس کسی بھی فرد کی عیادت کے لیے آئے ہیں، چاہے وہ آپ سے بڑا ہو یا چھوٹا اور اس کی بیماری کی نوعیت کیسی بھی پیچیدہ ہو، یہ نہ بھولیے کہ آپ یہاں اسے ہر ممکن حد تک حوصلہ دینے آئے ہیں۔ بیماری یا حادثے وغیرہ سے لڑتے ہوئے اس کے ٹوٹے ہوئے عزم کے لیے آپ کے چند الفاظ بہت اہم ہو سکتے ہیں اور اگر آپ نے چند لمحوں میں اپنی ‘بدن بولی’ یا الفاظ سے کوئی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کردیا، تو یہ اس کے لیے نہایت مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
بیماری سے جُھوجھتا اور بستر تک محدود فرد کی ساری دنیا انہی آنے جانے والوں کی مرہون منت ہوتی ہے اور آپ کے بے سوچے سمجھے کہے گئے غیر مناسب الفاظ اس کے لیے زہر بھی بن سکتے ہیں۔ اس موقع پر مریض ایک جگہ محدود ہونے کے سبب ایک بات کے کئی کئی ایسے پہلوؤں پر بھی دیر تک سوچتے رہتے ہیں، جن پر عام طور پر ہمارا دھیان بھی نہیں گیا ہوتا۔ اس لیے ہر لمحہ خود کو مستعد، مسکراتا ہوا اور ہشاش بشاش دکھائیے اور بھرپور اور پُرجوش انداز میں اپنے مریض سے ملیے اور پُراعتماد انداز میں اس کے روبرو اس کا حوصلہ بڑھائیے اور اس کی خوب خدمت کیجیے۔
بیمار سے تفصیلات ہرگز نہ پوچھیے
بہت سے عیادت کرنے والوں میں یہ ‘بیماری’ بھی ہوتی ہے کہ وہ مریض سے اس کو لاحق مرض یا حادثے کی تفصیلات مع جزئیات سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض سے اس کی خیر خیریت لینے کے ساتھ اگلے ہی سانس میں اس کی بیماری کی ساری تفصیلات کریدنے لگتے ہیں، کیا ہوا تھا؟ کیسے ہوا؟ کہاں ہوا؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ اور اب کیا ہوگا؟
یاد رکھیے، یہ امر بیمار کے لیے کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ خود سے اپنی کیفیت اور ساری تفصیلات بتائے، تو آپ چاہے پہلے سے ہی سب کچھ جانتے ہوں، اس کے باوجود اسے پورے انہماک اور دلچسپی سے سنیے اور جہاں جہاں وہ ہمت ہارنے لگے وہاں آپ اسے دلاسہ دیجیے اور حوصلہ بڑھائیے۔ اسے بتائیے کہ مرض بہت چھوٹا ہے اور وہ شخص اس سے بہت بڑا اور ہمت والا ہے۔
یہ بات سائنس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ دوا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ مریض کی مضبوط قوتِ ارادی اور مرض سے لڑنے کی قوت بھی بہت زیادہ معنی رکھتی ہے۔ اس لیے اس بات کو ہر لمحہ اپنے ذہن میں رکھیے کہ آپ معالج نہیں ہیں، صرف عیادت کرنے آئے ہیں، اس لیے بیمار کی طبّی رپورٹوں اور اس کی کیفیت کی اتنی ہی تفصیلات پر اکتفا کیجیے، جو سامنے ہوں یا بتا دی گئی ہوں۔
منفی مثالیں دینے سے گریز
شاید ہمیں عام میل جول کے آداب اور ڈھنگ ہی نہیں آتے، تو ہم کسی بیمار یا کسی طبّی مشکل میں مبتلا فرد کا سامنا کرنے کا طور کیسے جانیں؟ جیسے اکثر دیکھتے ہیں کہ عیادت کرنے والے مریض کی بیماری سے متعلق اس کے سامنے ترکی بہ ترکی اس بیماری کے مہلک اثرات اور جان لیوا ہونے کا ایک پورا ‘بیان’ شروع کردیتے ہیں۔ باقاعدہ عملی مثالیں دی جاتی ہیں کہ فلانے کو بھی ایسا ہوا تھا پھر اس کے ساتھ ایسا ہوا اور ویسا ہوا۔
اگر یہ واقعی حقائق پر مبنی گفتگو ہو، تب بھی یہ اس کا موقع اور محل نہیں، بلکہ یہ نہایت ‘مجرمانہ فعل’ ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم سماجی طور پر اپنے آپ میں سارے کے سارے ہی ‘ڈاکٹر’ ہیں۔ ہمیں اپنے حلقے میں ایک دو بیماریوں کی دو، ایک باتیں کیا پتا چل جائیں، ہمیں لگتا ہے کہ ہم طب کی دنیا میں کوئی ‘سند’ بن گئے ہوں۔ جبکہ بہت سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر بیماری کے شکار فرد کی قوتِ مدافعت، جسمانی حالت وغیرہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ ایک مرض کسی کے لیے جان لیوا ہوتا ہے، تو وہی مرض کسی دوسرے کے لیے کچھ زیادہ پریشان کُن ثابت نہیں ہوتا۔ ایک ہی طرح کا آپریشن کامیاب بھی ہوتا ہے اور بعض پیچیدگیوں یا مریض کی جسمانی حالت کے سبب خدانخواستہ ناکام بھی ہوجاتا ہے، لیکن بہت سے عیادت کرنے والے دھڑلے سے اپنے مریض کو متوقع آپریشن کا اتنا بُرا اور خوفناک نقشہ کھینچ دیتے ہیں کہ مریض آپریشن سے پہلے ہی دم بخود ہونے لگتا ہے کہ پتا نہیں اب کیا ہونے والا ہے۔ ہمارے لیے شاید یہ بہت معمولی سی چیزیں ہوں، لیکن مریض کے لیے ‘سمِ قاتل’ سے کسی طرح کم نہیں
نیک تمنائیں نذر کرنے میں کنجوسی
مریض کی عیادت کرنے والوں کے رویوں میں ایک ‘نئی’ بات یہ دیکھی گئی ہے کہ وہ مریض کے لیے دعائیں کرنے یا نیک تمنائیں پیش کرنے میں بھی سیدھی سیدھی سی کنجوسی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ‘اللہ تعالیٰ آسانی کرے!’ جس سے خود بخود ایک ناامیدی کا سا تاثر محسوس ہوتا ہے!
ہم یہ دعا ہرگز ہرگز غلط نہیں کہہ رہے، لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنے مریض کے لیے شفائے کاملہ کی دعا کریں اور اس سے کہیں بھی کہ آپ پریشان نہ ہوں، انشااللہ جلد پہلے کی طرح آپ بھلے چنگے ہو جائیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جس اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں، تو بیماری چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اس کے آگے تو کوئی معنی نہیں رکھتی، اس لیے ہمیں مریض کی حالت کتنی ہی تشویشناک کیوں نہ لگے لیکن ہمیں اس کے لیے مکمل شفا کی دعا ہی مانگنی چاہیے، کیونکہ دینے والی ذات کے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے اور پھر یہ کلمۂ خیر مریض اور اس کے تیمار داروں کو زیادہ حوصلہ بھی دیتا ہے اور ان کے لیے ایک امید اور ایک آس موجود رہتی ہے۔
طریقۂ علاج اور معالج پر تنقید نہ کیجیے
معالجین کی ساری مہارت ایک طرف اور عیادت کے لیے آنے والوں کے ‘مفت مشورے’ دوسری طرف۔ خیریت کے لیے آنے والا ہر دوسرا فرد اپنے مشوروں کی پٹاری سے طبّی خواص اور تیر بہ ہدف کوئی ٹوٹکا، کوئی آزمودہ نسخہ یا کسی نئے ڈاکٹر یا حکیم کا پتا ضرور لے کر آتا ہے، جو اس کے مطابق مریض کے اختیار کیے گئے طریقۂ علاج سے زیادہ ‘بہتر’ ہوتا ہے۔
کچھ سنگ دل عیادت کرنے والے تو نہایت بے رحمی (بلکہ بے شرمی) سے مریض کے اختیار کیے گئے طریقۂ علاج اور اس کی دواؤں کے مضر ہونے پر ‘عالمانہ’ لیکچر دینے لگتے ہیں کہ شفا ہوتے ہوئے مریض ہی کی سانسیں رکنے لگیں۔ اور کچھ تو اپنے لفظوں سے جسم کے اندر آنتوں اور مختلف اعضا کے افعال اور ان کے متاثر ہونے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، کہ اچھے خاصے آدمی کی طبیعت بگڑنے لگے، مریض تو پھر مریض ہے۔
مثبت اطلاعات دیجیے
اپنے مریض سے ملنے جائیں، تو اردگرد ہونے والے بُرے واقعات کی اطلاع دینے یا انہیں دُہرانے سے مکمل گریز کیجیے اور کبھی ایک بیمار کے سامنے اپنی زندگی کے دُکھڑے لے کر نہ بیٹھیے۔ ایک شخص ابھی خود اپنی بیماری سے پریشان ہے، آپ اس کے سامنے 10 اور مسائل بیان کرنے شروع کردیں، تو سوچیے کہ آپ اس کی بیماری گھٹانے کا باعث بن رہے ہیں یا بڑھانے کا؟
اگر مریض سے جڑا ہوا کوئی بُرا واقعہ بھی ہو تو اس کی اطلاع اس کی صحتیابی یا بہتر طبیعت تک موقوف کردیجیے۔ یقین جانیے، آپ کا یہ امر بھی کسی عبادت سے کم نہیں ہوگا۔ کوشش کیجیے، مریض کے سامنے اچھی اطلاعات کا زیادہ پرچار کیجیے، کچھ پرانی ہی سہی، لیکن اچھی یادوں، کامیابیوں اور خوشگوار باتوں کا ذکر چھیڑ دیجیے۔ اگر آپ تکلیف میں مبتلا فرد کو چند منٹ کے لیے ان میٹھی اور دلنشیں باتوں میں بہلا سکیں، تو یہ اس کی طبیعت پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرے گا اور کسی بھی عیادت کرنے والے کا مقصد بھلا اور کیا ہوتا ہے۔
بیمار کی عمر کا تذکرہ ہر گز نہ کیجیے
انسان کی عمر کتنی بھی ہو، اس کے لیے اس کی صحت یا زندگی کی اہمیت میں بالکل بھی کوئی فرق نہیں آتا اور ہماری نظر میں بھی نہیں آنا چاہیے۔ اس لیے عیادت کرتے ہوئے خدارا، ‘عمر کا تقاضا ہے…!’ یا ‘اب عمر بھی تو اتنی ہوگئی ہے ناں…’ جیسے فقرے زبان پر لانے سے باز رہیے۔
کچھ احباب تو دھڑلے سے کلینڈر نکال کر بتا دیتے ہیں کہ ‘یہ اتنے سال کے تو ہوگئے ہوں گے…!’ یہی نہیں، اگر آپ کسی سے اس کے بڑے کی خیریت دریافت کرتے ہوئے بھی ایسے الفاظ کہتے ہیں، تو یہ بھی اچھی خاصی بدتہذیبی میں گنا جائے گا۔ آپ خود سوچیے کہ آپ دوسرے الفاظ میں کیا کہہ رہے ہیں کہ عمر ہوگئی، تو اب یہ بیماری ہونی ہی تھی، یا ٹھیک ہے بیماری ہوگئی تو کیا ہوا؟ بجائے اس کے کہ آپ غیر رسمی طور پر اچھی طرح ان کی خیریت پوچھیے اور اپنے مثبت دلی جذبات پیش کیجیے۔