پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر آج بھی مندی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، کاروباری ہفتے کے پہلے روز 100 انڈیکس میں ایک ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔
پی ایس ایکس کی ویب سائٹ کے مطابق کاروبار کے آغاز پر 100 انڈیکس 43 ہزار 486.46 پوائنٹس پر تھا تاہم جلد ہی 806.95 پوائنٹ کی کمی دیکھی گئی، 10 بجے انڈیکس ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی کے بعد 42 ہزار 424.48 پر آگیا، 100 انڈیکس میں 2.44 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔
خیال رہے یہ کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ’فی الحال‘ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کر رہی ہے، تاہم یہ قرض کے پروگرام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی گئی اہم پیشگی شرط تھی۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کریں گے کہ کوئی اور حل تلاش کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ شہباز شریف اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے‘۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ میں نے انہیں تجویز دی ہے کہ پیڑول کی قیمت میں اضافہ کریں لیکن ان کا کہنا ہے کہ عوام یہ برداشت نہیں کر سکتی ہے‘۔
تاہم انہوں نے زور دیا کہ مستقبل میں بین الاقوامی قیمتوں کے پیشِ نظر کبھی بھی پیٹرول کی قیمت کو ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
عارف حبیب گروپ کے چیئرمین نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کو مارکیٹ میں مختصر دورانیے کے لیے استحکام لانے کے لیے مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی فوری بحالی کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے،بصورتِ دیگر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کا عمل مشکل ہوجائے گا۔
عارف حبیب کا کہنا ہے کہ ’اسٹاک مارکیٹ ان حالات میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے‘۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ مندی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کے سبب ہے اور اس کی وجہ اقتصادی معاملات پر حکومتی فیصلوں میں تاخیر ہے۔
دریں اثنا، فرسٹ نیشنل ایکویٹیز کے سی ای او علی ملک نے زور دیا کہ مالیاتی اداروں کو اسٹاک مارکیٹ سے تعاون کرنا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ 23 مئی کو پیش کی جانے والی مانیٹرنگ پالیسی مارکیٹ کے لیے اہم ہوگی، اطلاعات کے مطابق مانیٹری پالیسی میں شرح سود 2 تک فیصد بڑھتے کا امکان ہے، اگر ایسا ہوا تو اسٹاک مارکیٹ مین مندی قائم رہے گی‘۔
اقتصادی فیصلوں میں حکومت کی عدم دلچپسی معاشی عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے
نئی مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ کئی ہفتوں سے پی ایس ایکس اور روپیہ دونوں ہی دباؤ کا شکار ہیں، حکومت اقتصادی فیصلے لینے میں ناکام ہے، ان میں سے ایک اہم فیصلہ پیٹرول پر سبسڈی کا ہے۔
تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اس دباؤ کو آئی ایم ایف کے قرض کے پروگرام سے منسلک کیا ہے جبکہ تیل کے درآمدی بلوں میں اضافے نے بھی تجارتی خسارہ وسیع کردیا ہے۔
قبل ازیں کاروباری روز کے آغاز میں انٹر بینک میں ڈالر 193 روپے سے زائد میں فروخت ہورہا تھا۔
خیال رہے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں یہ نئی بلندی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ ہفتے پی ایس ایکس میں ایک ہزار 447.67 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی تھی جسے ’بلڈ باتھ‘ قرار دیا گیا تھا۔
تاہم اسٹاک مارکیٹ میں ہفتے بھر یہ ہی حالات برقرار رہے تھے جبکہ کاروباری ہفتے کے دوران بینچ مارک انڈیکس 35.29 پوائنٹس یا 0.08 فیصد کمی پر بند ہوا تھا۔
ڈالر کی اونچی اڑان
دریں اثنا، روپے کے مقابلے امریکی ڈالر نئی بلندیاں سر کرنے میں مصروف ہے، کاروباری ہفتے کے آغاز پر ہی ڈالر 194 روپے ہوگیا، تجزیہ کاروں نے ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ڈالر نے جمعے کو کاروبار کے اختتام کے مقابلے ایک روپے 30 پیسے کی بلندی حاصل کی ہے۔
کاروباری ہفتے کے پہلے روز انٹرویل سے قبل ڈالر 194روپے 30 پیسے میں فروخت ہوتا رہا۔
یہ پیش رفت روپے کی قدر میں تاریخی کمی کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی جس کی وجہ ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل ہیں۔
فوریکس ایسوسی ایشن پاکستان کی جانب سے جاری کردہ گزشتہ ہفتے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلسل 5 روز سے روپے کے مقابلے ڈالر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ایف اے پی کے مطابق گزشتہ منگل تک انٹر بینک میں بین الاقوامی کرنسی 188 روپے 66 پیسے تھی، جس کے بعد بدھ کو 190 روپے 90 پیسے پر پہنچی، جمعرات کو ڈالر نے 192 روپے کا ہندسہ عبور کیا اور کاروباری ہفتے کے اختتامی روز ڈالر 193 روپے 10 پیسے پر بند ہوا۔
تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کاروباری ہفتے کے آغاز میں ڈالر 192 روپے 53 پیسے پر بند ہوا تھا۔
خیال رہے یکم جولائی 2021 کو شروع ہونے والے رواں مالی سال کے بعد سے ڈالر کی قدر میں 18 روپے 17 پیسے اضافہ ہوا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ درآمدی بلوں میں بے قابو اضافہ ہے جو کم برآمدات سے منسلک ہے، جو کہ تجارتی خسارے کی عکاسی کرتا ہے، جولائی سے اپریل کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ 39 ارب ڈالر پر جا پہنجا ہے۔
دریں اثنا، جون 2020 کے بعد مرکزی بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 ارب 30 کروڑ ڈالر پر جا پہنچے ہیں، درآمدات کسی ملک کی غیر ملکی خریداری کی ادائیگیوں کی صلاحیت ظاہر کرتے ہیں جو چند مہینوں میں 1.54 فیصد کم ہوچکے ہیں۔
کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کرنسی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ ہے، دوسری جانب حکومت کی جانب سے ایندھن اور توانائی میں سبسڈی کی فراہمی اور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں تاخیر بھی روپے کی قدر میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
ایف اے پی کے چیئر پرسن ملک بوستان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ’ غیر بنیادی درآمدات روکنے اور برآمد کنندگان کو برآمد کے ذریعے ریونیو حاصل کرنے کا پابند کرنے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ کرنے سے ڈالر کی قدر میں 180 روپے تک کمی بھی آسکتی ہے۔
دریں اثنا، ایکس چینج کمپنیز آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی تک روپے کی قدر پر دباؤ برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے حکومت اور ایس بی پی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ غیر ضروری چیزوں کی درآمدات پر پابندی عائد کرتے ہوئے نعم البدل ایندھن کی فروغ کے اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے ان اقدامات کو درآمدی بل میں کمی سے منسلک کیا ہے۔