خانیوال کے گاؤں میں ذہنی طور بیمار شخص کے قتل کے ایک دن بعد اتوار کی شام تک 120 سے زائد چھاپوں کے دوران 85 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ روز فیصل آباد میں بھی سامنے آیا، تاہم پولیس نے مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھ جانے والے مشتبہ ملزم کی جان بچالی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق خانیوال سانحہ نے گزشتہ سال سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کی ہلاکت کے سنگین واقعے کی یاد تازہ کردی، حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس اندوہناک واقعے کو پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ مذمت کی تھی۔
حالیہ افسوسناک واقعے کے بعد وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی خانیوال پہنچے جہاں انہوں نے ایک پریس سے خطاب کرتے ہوئے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔تحریر جاری ہے
اتوار کی سہ پہر مقامی پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-B کے تحت مبینہ توہین مذہب کی ایک اور ایف آئی آر درج کرنے کا دعویٰ کیا جبکہ ایک ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 353، 186، 148، 149 اور انسداد بد عنوانی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 اے کے تحت تشدد سے قتل کی درج کی گئی تھی۔
میاں چنوں میں جنازہ اور تدفین کے بعد ڈان سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بڑے بھائی نے بتایا کہ مقتول 17 سے 18 سال سے ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ ماہ گاؤں واپس آنے سے پہلے تک کراچی میں دوسرے بھائی کے ساتھ رہ رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ برسوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہے لیکن صحت یاب نہیں ہو سکے، انہوں نے مزید بتایا کہ مقتول کی بیوی نے اسی معاملے پر طلاق لے لی تھی جبکہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہے۔
مقتول کے بھائی نے مزید بتایا کہ گزشتہ روز وہ سگریٹ خریدنے گئے تھے، شام تک واپس نہیں آئے اور بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا ہے۔
مقتول کے بھائی نے دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ اہل علاقہ مقتول کی ذہنی حالت کے بارے میں جانتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں ان کے بھائی کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا گیا اور انہیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
مقتول کے بھائی نے یہ بھی شکایت کی کہ اس خوفناک واقعے کے بعد اس کے بھائی کی انگلیاں غائب تھیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ توہین مذہب کا مقدمہ ایک روز پہلے درج کیا گیا تھا جس کے شکایت گزار محمد رمضان نے بتایا تھا کہ شاہ مقیم مسجد سے دھواں اٹھتا دیکھ کر دو افراد اظہر عباس اور مختیار حسین وہاں پہنچے تھے اور انہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک نامعلوم شخص قرآن کو نذرِ آتش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس کے بعد لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے اور اس شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
تلمبہ پولیس کا کہنا تھا کہ جنگل ڈیرہ والا سے ایک کال کرنے والے نے ہفتے کی شام انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک شخص کو پکڑا ہے جس نے مسجد میں قرآن پاک کے کچھ صفحات شہید کر دیے ہیں۔
پولیس کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی اور ملزم کو حراست میں لے لیا، تاہم وہاں جمع ہونے والے کئی سو لوگوں نے مشتبہ شخص کو پکڑلیا اور اس پر پتھر اور اینٹیں برسانا شروع کر دیں۔
بعد میں ہجوم نے اس شخص کو درخت سے باندھ دیا اور پتھر مار مار کر اسے ہلاک کر دیا، جب تک پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی مشتبہ شخص ہلاک ہو چکا تھا، انہوں نے اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیےہ منتقل کیا، جس کے بعد لاش کو تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔
دوسری جانب وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے اور اس کے ذمےداروں کو لازمی سزا دی جانی چاہیے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب حکومت کو فوری طور پر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جنہوں نے اس واقعے کو ہوتے ہوئے دیکھا اور اس واقعے کے مجرموں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قوانین موجود ہیں، پولیس کو قوانین کو نافذ کرنے چاہیے اور اس طرح سے ہجوم کو حکمرانی اور من مانی کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
The mob lynching of a man in MIan Channu is condemnable & cannot be allowed to go unpunished. Punjab govt must immed take action against the police that watched it happen & the perpetrators. Laws exist – the police must enforce these laws & not allow mobs to rule the day.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) February 13, 2022
میاں چنوں کے سانحے نے ایک بار پھر پوری قوم کو شرمندہ کر دی، بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میاں چنوں کے سانحے نے ایک بار پھر پوری قوم کو شرمندہ کر دیا، انہوں نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ کے بعد میاں چنوں میں پیش آئے جیسے واقعات حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہیں۔
پی پی پی چیئرمین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سانحے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ذمے داروں کو سزا دی جائے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر ہجوم کے ہاتھوں اس طرح کے وحشیانہ قتل کے واقعات سے عالمی سطح پر پاکستان کا تاثر بہت خراب ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کے مشتعل ہجوم پر کوئی چیک نہیں رکھا گیا تو پورا معاشرہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس لعنت کو روکنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آنا چاہیے، ان مزید کہنا تھا کہ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی نہ بنایا گیا تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی نہ رکنے والی روایت قائم ہو جائے گی۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما شاہد خاقان عباسی کی بھی مذمت
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا بھی قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد نہ صرف شرمناک ہے بلکہ تشویشناک اور پریشان کن بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔