یمن کئے شہر حدیدہ میں سعودی عرب کے فضائی حملے کے بعد ملک میں انٹرنیٹ کنکشن منقطع ہو گیا۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ایک مقامی گروپ نیٹ بلاکس نے بتایا کہ انٹرنیٹ منقطع ہونے کے مسائل مقامی وقت کے مطابق رات 1 بجے کے قریب شروع ہوئے اور اس نے ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو کنٹرول کرنے والی سرکاری کمپنی ٹیلی یمن کو بری طرح متاثر کیا۔
ٹیلی یمن اب حوثی باغی چلا رہے ہیں جنہوں نے 2014 کے آخر سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے۔
نیٹ بلاکس نے تفصیل بتائے بغیر کہا کہ ایک ٹیلی کام عمارت پر فضائی حملے کے بعد یمن میں قومی سطح پر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔
سان ڈیاگو میں قائم سینٹر فار اپلائیڈ انٹرنیٹ ڈیٹا اینالیسز اور سان فرانسسکو میں قائم انٹرنیٹ فرم کلاؤڈ فلیئر نے بھی یمن کو متاثر کرنے والی ملک گیر بندش کی نشاندہی کی۔
⚠️ Confirmed: #Yemen is in the midst of a nation-scale Internet blackout following airstrike on telecom building in #Hudaydah; real-time network data show collapse of connectivity on leading provider; incident ongoing 📉 pic.twitter.com/ZM77WdUpwm
— NetBlocks (@netblocks) January 21, 2022
حوثیوں کے المسیرہ سیٹلائٹ نیوز چینل نے کہا کہ ٹیلی کمیونیکیشن کی عمارت پر حملے میں کئی لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ اس حوالے سے جاری کی گئی ویڈیو میں امدادی کارکنوں کو لوگوں کو ملبے سے نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
حوثیوں سے لڑنے والے سعودی اتحاد نے الحدیدہ کی بندرگاہ کے اردگرد شدت پسند تنظیم کی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے درست فضائی حملے کرنے کا اعتراف کیا۔
البتہ انہوں نے فوری طور پر ٹیلی کمیونیکیشن کے ہدف کو نشانہ بنانے کا اعتراف نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے حدیدہ کو قزاقی اور ایرانی اسلحے کی اسمگلنگ کا مرکز قرار دیا۔
سمندر کے اندر سے فیلکن کیبل ٹیلی یمن کے لیے بحیرہ احمر کے ساتھ الحدیدہ بندرگاہ کے ذریعے انٹرنیٹ لے جاتی ہے۔
فیلکن کیبل یمن کی انتہائی مشرقی بندرگاہ غیدہ میں بھی موجود ہے لیکن یمن کی آبادی کی اکثریت بحیرہ احمر کے ساتھ مغربی حصے میں رہتی ہے۔
2020 میں جہاز کے لنگر کی وجہ سے فیلکن کیبل کٹنے کے سبب بھی یمن کو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ٹیلی یمن نے بتایا تھا کہ یمن کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کے لیے زمینی کیبلز کاٹ دی گئی تھیں۔
سعودی عرب کی زیر قیادت اتحادی افواج 2015 میں یمن کی جنگ کا حصہ بنی تھیں کیونکہ حوثی باغیوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔
یہ جنگ اب دنیا کے بدترین انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے اور عالمی برادری وہاں بڑے پیمانے پر قحط سالی کا خدشہ ظاہر کر چکی ہے۔
ایک طرف سعودی عرب کی جانب سے بمباری کی جاتی رہی جبکہ اس دوران حوثیوں نے بچوں کی فوجی کو استعمال کیا اور ملک بھر میں اندھا دھند بارودی سرنگیں بچھا دیں۔
ہی جنگ اب باقاعدہ طور پر سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات تک پہنچی ہے جہاں پیر کو حوثیوں نے ابوظبی پر ڈرون اور میزائل حملے کیے تھے جس میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔