بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں سندھ میں 950 صحت سہولیات عارضی اور 122 مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، سب سے زیادہ خیرپور میں 180 میں سے 171 عارضی اور 9 مکمل تباہ ہوگئیں، تھرپارکر میں 76 صحت کی سہولیات عارضی اور 54 مکمل تباہ ہوگئیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں صحت مراکز تباہ ہونے سے کراچی میں صحت کی سہولیات مزید متاثر ہوں گی۔
محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی جاری اعداد وشمار کے مطابق سندھ کے 30 اضلاع میں کل 2 ہزار 330 صحت کی سہولیات موجود ہیں جن میں سے اس وقت ایک ہزار 72 صحت کی سہولیات عارضی اور مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حیدرآباد میں 63 صحت مراکز ہیں جن میں سے مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں 39 عارضی اور ایک مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے، حیدرآباد میں 54 یونین کونسلز بھی بارشوں سے متاثر ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ضلع مٹیاری میں 42 صحت کی سہولیات میں سے 38 عارضی اور ایک مکمل طور پر تباہ ہوگئی، مٹیاری میں 18 یونین کونسلز بھی متاثر ہوئی ہیں۔
اعداد و شمار میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع بدین میں 30 صحت مراکز عارضی اور 8 مکمل طور پر تباہ ہوئے، بدین میں متاثر ہونیوالی یونین کونسلز کی تعداد 28 ہے۔
ڈی جی ہیلتھ سندھ کی رپورٹ کے مطابق ٹھٹھہ میں صحت مراکز عارضی متاثر ہوئے ہیں اور 30 یوسیز بری طرح متاثر ہیں، دادو میں 90 میں سے 24 صحت کی سہولیات عارضی اور دو مکمل تباہ ہوئی ہیں، 52 یونین کونسلز بھی متاثرہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سجاول میں 30 یوسیز متاثر ہوئیں، اسی طرح 9 صحت مراکز عارضی اور 6 مکمل تباہ ہوگئے، سکھر میں 47 یونین کونسلز متاثر ہوئیں، 73 میں سے 40 صحت مراکز عارضی اور ایک مکمل تباہ ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع خیرپور کی مکمل 180 صحت مراکز متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 171 عارضی اور 9 مکمل تباہ ہوگئے اور خیرپور میں تمام 76 یونین کونسلز بھی متاثر ہوئیں، ضلع لاڑکانہ میں بھی تمام 70 صحت مراکز اور 46 یوسیز بارشوں اور سیلابی پانی سے متاثر ہوئی ہیں۔
محکمہ صحت کی فہرست کے مطابق عمر کوٹ میں 76 صحت مراکز عارضی اور 10 مکمل تباہ ہوئے، تھرپارکر میں 76 صحت مراکز عارضی اور 54 مکمل تباہ ہوگئے، نوشہروفیروز میں بھی 117 صحت سہولیات میں سے 115 عارضی اور 2 مکمل تباہ ہوگئیں، جبکہ نوشہرو فیروز کی 51 اور سانگھڑ کی 54 یوسیز بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
کراچی میں بارشوں کے نتیجے میں 27 صحت مراکز عارضی اور کیماڑی کا ایک صحت مرکز مکمل تباہ ہوا، ضلع شرقی میں 3، وسطی میں 8، ملیر میں 6، جنوبی میں 3 اور کیماڑی میں 7 صحت مراکز عاضی متاثر ہوئے، کراچی میں ضلع شرقی کی 4 اور ملیر کی 2 یوسیز متاثر ہوئی ہیں۔
موجودہ صورتحال پر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ سندھ میں کراچی کے سوا تقریباً تمام ہی صحت کی سہولیات بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور اس کی وجہ سے تمام مریضوں کا دباؤ کراچی پر آئے گا، اس پہلے بھی کراچی میں 3 بڑے اسپتال ہیں جن میں سے صرف 2 ہی مکمل فعال ہیں، عباسی شہید اسپتال کی صورتحال ایسی ہے کہ اسے گنتی میں شمار نہیں کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں پہلے ہی بستروں اور صحت کی سہولیات آبادی کے اعتبار سے ناکافی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر صحت کی سہولیات کو بہتر بنائے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ جو سیلاب متاثرین کراچی آرہے ہیں حکومت کو ان کی بحالی کیلئے فوری اور تیز اقدامات اٹھانے ہوں گے، حکومت کو چاہئے دوسرے شہروں میں منتقل ہونیوالے سیلاب متاثرین کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پہلے ہی روٹین کے آپریشن، ریڈیالوجی کے ٹیسٹ کیلئے سرکاری اسپتال لمبی لمبی تاریخیں دیتے ہیں کیونکہ حکومت نے صحت کی سہولیات میں اضافہ ہی نہیں کیا۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی نے کہا کہ اس وقت کراچی کی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہاں مزید 7 بڑے اسپتالوں اور 3 ٹراما سینٹرز کی ضرورت ہے اور یہ ٹراما سینٹرز بھی ہائی ویز کے پاس تعمیر ہونے چاہئیں، سول اسپتال ٹراما سینٹر صرف دکھانے کیلئے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے شہری ویسے ہی نجی اسپتالوں کے رحم و کرم پر ہیں، سندھ کے باقی اضلاع میں صحت کی سہولیات متاثر ہونے سے کراچی میں اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا۔
ڈاکٹر عبداللہ متقی نے مزید کہا کہ تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ لانگ ٹرم پلان کرے، بحالی کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں حکومت کو چاہئے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنائے، وہاں عاضی اسپتال قائم کئے جائیں تاکہ شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم ہوسکیں۔