’جنوری کی ایک دوپہر ٹیوب اسٹیشن سے 15 منٹ کے فاصلے پر ایک پُروقار خاتون نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا، شاید مجھے دیکھ کر انہیں لاہور کے دنوں کے اپنے کسی ملنے والے کی یاد آگئی ہوگی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا لینا پسند کروں گا، اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا میں نہیں سمجھ سکا کہ مجھے دوپہر کے کھانے کی دعوت دی گئی ہے یا چائے کی۔
‘میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے سوپ کا پیالہ پیش کرنا چاہ رہی ہیں۔ ’آپ کے پاس کیا ہے؟‘ میں نے دریافت کیا۔ ’اچھا میں آپ کو اسکاچ یا جن پیش کرتی ہوں‘، اس کے جواب نے مجھے پریشان کردیا، میں ایک انٹرویو کی تیاری کرکے آیا تھا اور ڈرنک آن دی راکس سے شاید موضوع پر توجہ مرکوز رکھنے میں مشکل ہوتی لہٰذا میں نے معذرت کرلی۔ وہ دوبارہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ’تمام پاکستانی کمیونسٹ دوپہر سے پہلے ہی پینا شروع کردیتے ہیں، وہ بغیر کچھ ملائے خالص اسکاچ پینا پسند کرتے ہیں‘۔ یہ بڑا دلکش، خوش آئند اور قطعی درست تبصرہ تھا۔‘
ایک محقق، ڈھیر ساری غیر ملکی ڈگریاں رکھنے والا دانشور اور وہ بھی جو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی تاریخ رقم کررہا ہو جب اس سطحی اور روایتی مذہبی تنگ نظری کے ساتھ کمیونسٹوں کی شراب نوشی کے حوالے سے کردار کشی کررہا ہو تو یہ خود سرخ سلام کے مصنف کامران اصدر علی کے فکری و نظریاتی پس منظر پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔
موصوف لندن میں مقیم ایک غیر ملکی خاتون جون افضل کے اس بیان سے ناصرف گفتگو کا آغاز کررہے ہیں بلکہ اسے قطعی طور پر درست بھی قرار دے رہے ہیں کہ پاکستان کے سارے کمیونسٹ دوپہر آنے سے پہلے ہی خالص اسکاچ پینا شروع کردیتے ہیں۔
کامران اصدر علی کی کتاب سرخ سلام کا اردو ترجمہ
اب خیر سے نہ تو کمیونسٹ پارٹی رہی اور نہ سکہ بند مارکسسٹ، مگر برسوں سے ہمارے کامریڈوں کے بارے میں اور بہت سے کردہ ناکردہ جرائم میں یہ بھی شامل رہا کہ اوّل تو یہ دہریے ہوتے ہیں، دوسرے مادر پدر آزاد اور تیسرے شرابی۔
ایک عرصے سے سرخ سلام بہ زبان انگریزی میر سرہانے دھری تھی۔ ایک دو باب کی ورق گردانی بھی کی، مگر گزشتہ ماہ جب یہ اردو میں منتقل ہوکر ہاتھ آئی تو ذرا روانی سے پڑھنا شروع کیا۔ باب دوم کے صفحہ 89 نے ایسا پکڑا کہ معذرت کے ساتھ اس تحقیقی، علمی کتاب میں انتہائی گراں قدر، نایاب مواد پر گفتگو کرنے کے بجائے محاورے کی زبان میں یہیں سوئی اٹک گئی۔
پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اور اس کے رہنما قائدِاعظم محمد علی جناح پر ہزاروں نہیں تو سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں مگر بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ مخالف اور خاص طور پر ترقی پسند، قوم پرست جماعتوں اور تحریکوں کے بارے میں گنتی کی کتابیں ہی لکھی گئی ہوں گی۔
مسلم لیگ کی قیادت سے بغاوت کرنے والی عوامی مسلم لیگ پھر عوامی لیگ، آزاد پاکستان پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے بارے میں مختلف کتابوں میں بکھرا ہوا مواد ملتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان یا پھر پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے سردوگرم کے بارے میں یادداشتیں اور سوانح تو خیر بہت بڑی تعداد میں لکھی گئیں۔
پنڈی سازش کیس جو کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کا بنیادی سبب بنا اس پر سابق میجر محمد اسحٰق، عبد الرؤف ملک، سردار شوکت علی، طفیل عباس، عبداللہ ملک اور ہاں حال ہی میں اشتراکیت سے منحرف ہونے والے مرحوم پروفیسر جمال نقوی کی کتاب سے کمیونسٹ پارٹی اور اس میں ہونے والی دھڑے بندی کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم جسے ’مکمل جامع کمیونسٹ پارٹی‘ کی تاریخ کہیں، جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بارے میں کئی جلدوں میں ترتیب دی گئی ہے، وہ کم از کم اس طالب علم کی نظر سے نہیں گزری۔
بلاشبہ پاکستان میں بلکہ قیام پاکستان سے پہلے ہی انتہائی متحرک پارٹی کے کارڈ ہولڈر ایک سیّد سبط حسن ہی تھے جو یہ فریضہ انجام دے سکتے تھے۔ ’موسیٰ سے مارکس تک‘، ’ماضی کے مزار‘ اور ’نوید فکر‘ کو بلاشبہ ’نظریاتی کتابوں‘ میں بائبل کا درجہ دیا جاتا ہے۔
سید سبط حسن
حیرت ہوتی ہے کہ اپنی آسودہ حالی کے دنوں میں انہوں نے اس بھاری پتھر کو اگر کبھی بوسہ دیا بھی ہو تو اسے تکمیل تک پہنچانے سے گریز کیا۔ ایک سکہ بند مارکسسٹ کی حیثیت سے یہ ہمارے سیّد سبط حسن ہی تھے جو اگر یہ کام کرجاتے تو اس سے ہم جیسے طالب علموں کی رہنمائی ہی نہیں ہوتی بلکہ بعد میں اس موضوع پر لکھنے والوں کو بنیادی مواد بھی مل جاتا کہ جو مستند بھی ہوتا اور جس کی روشنی میں کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹوں کے کردار کو درست تناظر میں دیکھا جاسکتا۔
میں یہ بتانے بلکہ لکھنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ 1970ء کی دہائی آغاز سے ہی کامریڈوں کے ہاتھ چڑھنے کے سبب صبح سے شام بلکہ رات گئے تک ان کے ساتھ رہتا۔ چلیں نام بھی لکھ دیتا ہوں کہ مارکس ازم کا تو پہلا سبق ہی سیّد سبط حسن سے پڑھا پھر ڈاکٹر شیر افضل ملک، ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر محمد سرور، سوبھو گیان چندانی، منہاج محمد خان برنا، معراج محمد خان، شیر محمد مری، افراسیاب خٹک، پروفیسر جمال نقوی، عابد حسن منٹو، عبداللہ ملک، پروفیسر امین مغل، ڈاکٹر اقبال احمد اور ڈاکٹر فیروز احمد کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔
سوبھو گیان چندانی
ان میں سے چند نے زندگی بھر ہاتھ بھی نہ لگایا اور پینے والوں کی اکثریت کو بھی غروبِ آفتاب سے پہلے ہاتھ لگاتے نہیں دیکھا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ سرخ سلام بہ زبان اردو مکتبہ دانیال نے شائع کی ہے جس کے ملک نوارنی بمبئی کے دنوں سے سجاد ظہیر کے ذاتی دوست اور کمیونسٹ پارٹی کے ہمدرد تھے۔ ان کی بیگم ممتاز نورانی پارٹی کی خواتین میں انجمن جمہوریت خواتین کی قائدین میں سے تھیں۔
سید سجاد ظہیر جب زیرِ زمین تھے تو کراچی میں اکثر ان کا قیام ملک نوارنی کے گھر ہوتا تھا۔ مکتبہ دانیال ان دنوں ملک صاحب کی صاحبزادی حوری نورانی چلا رہی ہیں۔ یقیناً ان کی بچپن کی یادوں میں محفوظ ہوگا کہ مجھ سمیت نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا ایک غول دن بھر کی نعرے بازی کے بعد ان کے کلب روڈ کے فلیٹ آدھمکتا، شام کی چائے، بعد میں رات کا کھانا اور ہاں اکثر سینئر کامریڈوں کے ساتھ اسٹڈی سرکل بھی ہوتے۔ مگر توبہ توبہ، یہاں بھی وہسکی تو کیا، کُپی بھی نصیب نہیں ہوتی۔
پروفیسر جمال نقوی
افراسیاب خٹک
یہاں تک پہنچا ہوں تو لگتا ہے کہ میں کامریڈ اصدر اور اس سے زیادہ اس علم و حکمت کے خزانے سے ذرا زیادتی کر بیٹھا مگر محض ایک غیر ملکی خاتون جن کے شوہر محمد افضل کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگنے اور چند سال قید بھگتنے کے بعد ملک چھوڑ کر لندن جیسے پُرشکوہ شہر میں جابسے ہوں، ان کی بیگم کی تہمت کو کیسے درگزر کردیا جائے کہ یہ حسن ناصر سمیت ان سیکڑوں کامریڈوں کی فکری، نظریاتی جدوجہد پر گراوٹ سے بھرا الزام ہے کہ جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں برسوں جیلوں کی سختیاں جھیلیں۔ اپنے سارے خاندان اور مستقبل کو داؤ پر لگا کر یا تو ذہنی مریض ہوگئے یا خون تھوکتے مرگئے مگر شراب جیسی عیاشی تو کیا چائے سگریٹ کے لیے بھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔
حسن ناصر
کامران اصدر علی نے کتاب کے آغاز میں ہی اظہارِ تشکر کوئی 11 صفحات میں کیا ہے۔ درجنوں علمی تحقیقی اداروں اور سیکڑوں دانشوروں اور عینی شاہدوں کے شہروں شہروں جاکر شب و روز بڑی محنت سے انٹرویو کیے۔ کتاب میں سب سے اہم باب 1940ء سے 1947ء اور پھر 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگنے تک کا ہے۔ خاص طور پر 1948ء میں ہونے والی کلکتہ کانگریس جس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قیام کے حوالے سے جو تفصیلات دی گئیں ہیں وہ پہلی بار منظرِ عام پر آئی ہیں۔
اس بات کا اعتراف کیوں نہ کروں کہ ابھی کتاب کے حصّہ دوئم باب اوّل کے اوراق تک پہنچا ہوں، یہ سرگزشت بلاشبہ اس کتاب کا بڑا اہم باب ہے جس میں لاہور کے شاہی قلعہ میں مشہور کمیونسٹ حسن ناصر کے سفاکانہ قتل کی روداد بیان کی گئی ہے۔ بلاگ کی طوالت کے پیشِ نظر مزید تبصرہ آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔