اور لائبریریوں کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباً 200 عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں۔
وسطی جرمنی کے شہر وائیمار نے تو اپنے پورے بلدیاتی علاقے میں توانائی کی بچت کے پروگرام پر اس سال موسم گرما کے ابتدائی مہینوں سے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے تحت سڑکوں اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے راستوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اب ہر شام آدھ گھنٹے کی تاخیر سے روشن کی جاتی ہیں اور ہر صبح آدھ گھنٹہ پہلے ہی بجھا دی جاتی ہیں۔
اس طرز عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوں بجلی اور مالی وسائل کی بچت تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ہی تاریک شہر تحفظ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی کئی حوالوں سے مثبت نتائج کا سبب بنیں گے۔
لائٹس بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار
امریکا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں۔
اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بے تحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ 3 بلین یورو کی بچت کی جا سکتی تھی۔
اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔
روشنیوں سے آلودہ آسمان
آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔
یورپ اور امریکا میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔
تاریکی کی ضرورت ہے
رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہتر ہے۔
اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔
جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کیبا کہتے ہیں کہ جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔
تاریکی جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے
زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مثلاً کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔
ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے اسی وجہ سے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں۔
جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔
رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں۔