صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ قدرتی گیس کی روبیل میں ادائیگی کا منصوبہ ہی اصل نمونہ ہے جس کو دنیا کا سب سے بڑا ملک اہم اشیا کی برآمدات میں توسیع دے گا کیونکہ مغربی ممالک نے ڈالر کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے روس کے اثاثے منجمد کردیے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق روس کی معیشت کو 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے سب سے بدترین بحران کا سامنا ہے کیونکہ 24 فروری کو یوکرین پر صدر ولادمیر پیوٹن کے حملے کے سبب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں۔
اس پر پیوٹن کا بنیادی اقتصادی ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے 23 مارچ کو روسی گیس کی برآمدات کی ادائیگی روبیل میں کرنے کا حکم دیا تھا البتہ یہ اسکیم خریداروں کو معاہدہ شدہ کرنسی میں ادائیگی کرنے کی اجازت دیتی ہے جسے گیزروم بینک کے ذریعے روبیل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ون کو گیس کی ادائیگی کے نظام کے لیے روبل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نظام کا اصل نمونہ ہے۔
پیسکوف نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسے سامان کے نئے گروپوں تک بڑھایا جائے گا تاہم انہوں نے اس عمل کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔
دمتری پیسکوف نے کہا کہ مغرب کا مرکزی بینک کے 30 ارب ڈالر کے ذخائر کو منجمد کرنے کا فیصلہ ایک ڈکیتی ہے جس نے پہلے ہی عالمی ریزرو کرنسیوں کے طور پر امریکی ڈالر اور یورو پر انحصار سے رو کو دوریاں بڑھانے پر مجبور کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کریملن 1944 میں مغربی طاقتوں کے ذریعے قائم کیے گئے بریٹن وُوڈز کے مالیاتی ڈھانچے کی شکل بدلنے کے لیے ایک نیا نظام چاہتا ہے۔
کریملن کے ترجمان نے کہا کہ گوکہ یہ اس مالیاتی نظام کے اطلاق میں وقت ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ہم ایک نئے نظام کی طرف آئیں گے جو بریٹن وُوڈز سسٹم سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس پر مغرب کی پابندیوں نے ڈالر اور یورو پر اعتماد کے فقدان کو مزید تقویت دی ہے۔
پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن ضروری ہے کیونکہ امریکا یوکرین کو روس کو دھمکی دینے کے لیے استعمال کر رہا تھا اور ماسکو کو یوکرین کی جانب سے روسی زبان بولنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا دفاع کرنا تھا۔
یوکرین نے پیوٹن کے ظلم و ستم کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بلا اشتعال جارحیت کی حامل جنگ لڑ رہا ہے۔
روسی حکام نے بارہا کہا ہے کہ دنیا کے قدرتی وسائل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک کو تنہا کرنے کی مغرب کی کوشش ایک غیر معقول عمل ہے جو صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے اور یورپ اور امریکا کو کساد بازاری کی طرف لے جائے گا۔
روس طویل عرصے سے امریکی کرنسی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ اس کی اہم برآمدات تیل، گیس اور دھاتوں کی قیمت عالمی منڈیوں میں ڈالر میں ہیں، عالمی سطح پر ڈالر تجارت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے، اس کے بعد یورو، ین اور برطانوی پاؤنڈ ہیں۔