بھارتی ہائی کورٹ نے ریاست کرناٹک کے کلاس رومز میں حجاب پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دے دیا، پابندی کے حکم نامے کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے اور چند ہفتوں کے بعد فیصلے نے ملک کی مسلم اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کے نئے خدشات کو جنم دے دیا ہے۔
گزشتہ سال کے آخر میں نوجوان لڑکیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو اسکول کی حدود میں حجاب پہننے سے روکے جانے کے بعد ریاست کرناٹک میں کئی ہفتوں تک بے چینی اور اشتعال دیکھا گیا تھا۔
ریاست بھر میں مظاہروں کے دوران لوگوں پر برف کے گولے پھینکیں گئے اور پولیس نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ اس دوران مزید اسکولوں نے اپنی پابندیاں عائد کر دیں اور بنیاد پرست ہندو گروہوں نے بھی حجاب کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کے جواب میں بڑے اور پرجوش جوابی مظاہرے کیے تھے۔
کئی ہفتوں کے غور و خوض کے بعد ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ حجاب پہننا “دین اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔
ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان اسکولوں کے پاس لباس کوڈ نافذ کرنے کے لیے معقول وجوہات ہیں جو مذہب اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کو روکنے کے لیے حجاب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
حجاب پہننا دین اسلام کا ایک اہم مضمون ہے اور ریاست کرناٹک کے بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ مسلمان لڑکیاں کئی دہائیوں سے اسکولوں میں پہنتی آرہی ہیں جبکہ ہندو، سکھ اور عیسائی طلبہ اپنے اپنے مذاہب کی علامات اور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ناقدین نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی کرناٹک حکومت کے حکام پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نسلوں سے پرامن طور پر ساتھ رہنے والی مذہبی برادریوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھارتی سیاستدانوں اور صحافیوں نے بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی، بہت سے لوگوں نے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی نشاندہی کی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے “بہت مایوس” ہوئے ہیں، انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہ معاملہ عورت کے اس حق سے متعلق ہے کہ وہ کس طرح کا لباس پہننا چاہتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ “عدالت نے عورت اس بنیادی حق کو برقرار نہیں رکھا، یہ فیصلہ غلط ہے۔
اسی طرح کے جذبات کا اظہار مقبوضہ جموں و کشمیر کی ایک اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کیا، انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ہم ان کے سادہ سے انتخاب کے حق کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کے صرف مذہب کے حق کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ان کے انتخاب کرنے کی آزادی کے حق کے بارے میں ہے۔
معروف مسلم قانون ساز اسدالدین اویسی نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک 15 نکاتی اپنا طویل پیغام شیئر کیا، جس میں انہوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ کہا کہ اس فیصلے نے “مذہب، ثقافت اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی مذہب کے دوسرے لوگوں کو بھی ضروری بات کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے، یہ معاملہ فرد اور خدا کے درمیان ہے، ریاست کو مذہبی حقوق میں مداخلت کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جانی چاہئے جب اس طرح کی عبادتوں سے دوسروں کو نقصان پہنچے جبکہ سر پر اسکارف پہنننا کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
این ڈی ٹی وی کی کنسلٹنگ ایڈیٹر ندھی رازدان نے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت کے پاس اس پر کہنے کے لیے کچھ ہے کہ جس طرح مسلم خواتین کے ساتھ بدسلو کی گئی اور ان کے حجاب اتارنے کی کوشش کی گئی، ؟ کیا فیصلے میں اس سے متعلق کچھ کہا گیا ہے کہ جس طرح سے چھوٹی لڑکیوں کو اس وقت تک اسکول جانے سے روک دیا گیا جب تک کہ وہ گیٹ پر اپنے سر سے اسکارف نہ اتار دیں؟
ایک اور صحافی شمس عرفان نے فیصلے کے بعد کی صورتحال پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو جو ابھی صرف اسکولوں اور کالجوں کے لیے ہے، جلد ہی سڑکوں اور عوامی مقامات پر غنڈوں کے ذریعے نافذ کیا جائے گا۔
صحافی عارفہ جوہری نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘معاملہ ہمیشہ بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا تھا، اور اب اس طرز عمل میں عدالت بھی شامل ہو گئی ہے’۔
صحافی سومیدھا پال کا فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ‘حجاب ایک بنیادی حق ہے، یہ جسمانی خود مختاری کا اتنا ہی اہم معاملہ ہے جتنا کہ کسی شخص کا مذہب اس کے لیے ہے، عدالت نے گویا کہہ دیا ہے کہ یکساں یونیفارم بنیادی حقوق سے بھی بالاتر ہے، یہ بہت مایوس کن فیصلہ ہے’۔