یوکرین نے ممکنہ روسی حملے کی پیش گوئی پر ردِ عمل دیتے ہوئے خطرے کی سنگینی کو مسترد کردیا۔
یوکرین کی جانب سے یہ بیان امریکی عہدیداروں کی جانب سے ان بیانات کے بعد سامنے آیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ روس نے بڑی دراندازی کے لیے اپنی تیاریاں تیز کردی ہیں۔
نجی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا کہ کریملن نے اپنے مغرب نواز پڑوسی کے ساتھ سرحد پر ایک لاکھ 10 ہزار فوجی جمع کر رکھے ہیں لیکن انٹیلی جنس کے جائزوں سے یہ تعین نہیں ہوا کہ کیا روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے واقعی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ سرحد پر جمع ہونے والی روسی فوج اس تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے روسی صدر کو وہ طاقت مل جائے گی جو انہیں بڑے پیمانے پر حملے کے لیے درکار ہے یعنی فروری کے وسط تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی سرحد پر ہوں گے۔
ان کا اندازہ ہے کہ ولادیمیر پیوٹن اپنے اختیار میں یوکرین کے روس نواز ڈونباس علاقے میں ایک محدود مہم سے لے کر ایک مکمل حملے تک تمام ممکنہ آپشنز چاہتے ہیں جبکہ روس اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ یوکرین میں دراندازی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
دوسری جانب یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ‘سنگین پیش گوئیوں پر یقین نہ کریں، مختلف دارالحکومتوں کی مختلف صورتحال ہے لیکن یوکرین کسی قسم کی تنصیب کے لیے تیار ہے’۔
ان کے علاوہ صدارتی مشیر کا کہنا تھا کہ آج یوکرین کے پاس ایک مضبوط فوج، بے مثال بین الاقوامی حمایت اور اپنے ملک میں یوکرینی عوام کا اعتماد ہے، دشمن ہی کو ہم سے ڈرنا چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مزید کشیدگی بڑھنے کے مقابلے میں بحران کا سفارتی حل نکالنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یوکرین کچھ یورپی اتحادیوں کی حمایت سے مسلسل حملے کے خدشے کو کم کرتا آیا یے اور اپنی مشکل معیشت کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے تنازع سے بچنے کی کوشش کررہا ہے۔
صدارتی مشیر کا مزید کہنا تھا کہ روس کا حالیہ اقدان حیرت انگیز نہیں ہے کیوں کہ ماسکو نے گزشتہ موسم بہار میں سرحد پر افواج کی بڑی تعداد کے بعد سے مستقل بنیادوں پر بڑے پیمانے پر فوجیوں کی گردش، مشقوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی کے ذریعے یوکرین پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس کی سرگرمی کب تک جاری رہے گی اور اسے کس مقصد کے لیے برقرار رکھا گیا ہے؟ اس سوال کا صحیح جواب صرف کریملن ہی کو معلوم ہے۔
امریکا کی جانب سے سخت انتباہات س وقت سامنے آئے جب یورپ بحران کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔