امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت کا ایک سال مکمل ہونے پر اعلیٰ عدالتی حکام پر پابندیاں عائد کردیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ میں غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکی محکمہ خزانہ نے اٹارنی جنرل تھیڈا او، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹنٹن او اور چیئرمین اینٹی کرپشن کمیشن یو ٹن او کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں، امریکی محکمے کے مطابق یہ تمام لوگ اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سوچی کے خلاف سیاسی بنیادوں پر ہونے والی قانونی کارروائی میں ملوث ہیں۔
برطانیہ نے کہا کہ وہ تھیڈا او، ٹن او اور تیسرے شخص چیئرمین الیکشن کمیشن یو تھین سو کے خلاف پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ہم عالمی برادری کی جانب سے برما کے لوگوں کی حمایت کے اظہار اور بغاوت اور موجودہ حکمرانوں کے تشدد کے خلاف مزید جواب طلبی کے فروغ کے لیے پابندیوں کے معاملے پر برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کو روکنے کے لیے، غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے گئے لوگوں کی رہائی، بغیر رکاوٹ انسانی رسائی اور برما میں جمہوریت کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ کام کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ لز ٹرس نے اپنے بیان میں کہا کہ میانمار کی فوجی حکومت نے میانمار کے لوگوں کو دہشت زدہ کرکے دبانے کی کوشش کی ہے، خوف اور تشدد کے لیے موجودہ حکمرانوں نے تقسیم اور تنازع پیدا کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ ہمیشہ آزادی، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے حق کی حمایت کرے گا، ہم ذہنی ہم آہنگی والی اقوام کے ساتھ مل کر اس ظالم، وحشی حکومت سے جواب طلبی کریں گے۔
امریکا نے ان تین سینئر اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان اہلکاروں نے قانون کی بالادستی کی پامالی اور سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس طرح سے عالمی امن کی سخت خلاف ورزی کرتے ہوئے سلامتی کی صورتحال کو بگاڑے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
امریکا نے علیحدہ سے بھی میانمار کی موجودہ فوجی حکومت کو مالی مدد فراہم کرنے کے الزامات پر کئی کاروباری رہنماؤں اور کمپنیوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا تھا کہ پابندیوں کے شکار افراد میں کے ٹی گروپ کے سی ای او جوناتھن میو کاو تھانگ اور کے ٹی گروپ کی سبسڈری کے ٹی ایس ایل کے ڈائریکٹر شامل ہیں، برما کی فوج کو اسلحہ، دیگر آلات اور خدمات فراہم کرنے والی متعدد کمپنیوں کے مالک ٹے زا، ان کے دو بالغ بچوں ہی ٹو ہی ٹیٹ ٹے زا اور پی یی پی یو ٹے زا بھی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد میں شامل ہیں۔
خیال رہے کہ میانمار کے فوجی جرنیلوں نے گزشتہ برس یکم فروری کو حکومت کا تختہ اُلٹتے ہوئے 75 سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔
جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ نومبر 2020 میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ کیا تھا۔
میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔
فوجی حکومت میں زیادہ عرصے تک نظر بند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔
میانمار کے ایک انجینیئر کاوے زن تن نے ینگون میں احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم وہی خود محسوس کررہے ہیں جس کے سائے تلکے ہم 1990 کی دہائی میں پلے بڑھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری حکومت میں یہ خوف ختم ہو گیا تھا لیکن اب اسی خوف نے دوبارہ جگہ لے لی ہے، لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کے لیے اس فوجی حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔