قطر کے آرام دہ ٹاؤن ہاؤسز میں مفت کھانے اور وائی فائی پر سرفنگ کا لطف اٹھاتے ہوئے، افغانستان سے فرار ہونے والوں نے طالبان کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ افغان تارکین وطن انتہائی نامساعد حالات میں رہ رہے ہیں۔
نجی اخبار میں خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی شائع رپورٹ کے مطابق ایک غیر یقینی مستقبل کے باوجود دوحہ کے پارک ویو ولاز کے افغانوں کا اصرار ہے کہ ان کا اسلام پسندوں کے زیرکنٹرول اپنے وطن واپس جانے کا کوئی امکان نہیں، چاہے افغانستان کے نئے حکمران جو بھی دعوے کریں۔
گزشتہ سال اگست سے لے کر اب تک 75 ہزار سے زائد افغان قطر داخل ہوچکے ہیں جس نے طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کی ثالثی کی اور بیرونی دنیا سے طالبان کے پیچیدہ روابط میں ایک اہم ثالث کا کردار ادا کیا۔
ایک سو افغان اب پارک ویو میں موجود ہیں، یہ ایک کمپاؤنڈ ہے جو رواں سال کے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے ہاؤس آفیشلز کے لیے بنایا گیا ۔
200 دیگر افراد کو رواں ہفتے ایک قریبی امریکی کیمپ میں بھیج دیا گیا تاکہ انہیں امریکا منتقل کیا جا سکے۔
بڑی تعداد میں افغان تارکین وطن کی آمد اور امریکی فوجی اڈے پر ایمرجنسی کیمپ میں سہولیات پر تنقید کے بعد ولاز کھولے گئے۔
کمپاؤنڈ کی سڑکیں کسی حد تک امریکی پڑوس سے ملتی جلتی ہیں۔
اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا خیال ہے کہ ہزاروں افغان تارکین قطر اور ترکی میں بہت خراب حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
قطر میں موجود افغان رہائشیوں نے اس رائے سے اختلاف کرنے کی جرأت کی۔
22 سالہ تحمینہ ہیراوی نے کمپاؤنڈ کی زندگی کا ایک اہم مرکز سمجھے جانے والے پارک ویو نرسری اسکول میں رضاکارانہ کام سے وقفے کے دوران کہا ’میں یہاں چل سکتی ہوں، میں محفوظ محسوس کر رہی ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کے حالات افغانستان میں گھر میں رہنے اور اپنے تاریک مستقبل کے لیے پریشان رہنے سے کہیں بہتر ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ وہ یقینی طور پر افغانستان واپس جاتیں اگر وہاں طالبان حکومت نہیں کر رہے ہوتے۔