کابل: افغان طالبان نے آئندہ ہفتے سے ہائی اسکول کھلنے پر افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں واپس جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل کئی ماہ تک اس حوالے سے غیریقینی صورتحال کے بادل منڈلا رہے تھے کہ آیا طالبان لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم تک مکمل رسائی کی اجازت دیں گے یا نہیں۔
وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے کہا کہ اسکول تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کھولے جا رہے ہیں۔
البتہ انہوں نے واضح کیا کہ لڑکیوں کے لیے کچھ شرائط ہیں، طالبات کو لڑکوں سے الگ اور صرف خواتین اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دیہی علاقوں میں جہاں خواتین اساتذہ کی کمی ہے، وہاں بڑی عمر کے مرد اساتذہ کو لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت ہو گی۔
عزیز احمد نے کہا کہ اس سال ایک بھی اسکول بند نہیں ہو گا، اگر کوئی اسکول بند ہوتا ہے تو اسے کھولنا وزارت تعلیم کی ذمہ داری ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں اور کالجوں میں داخلے اور تعلیم کے حصول کی اجازت دینا ایک اہم مطالبہ رہا ہے۔
لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ سلوک پر تشویش اور معزول انتظامیہ کے سابق فوجیوں اور اہلکاروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے پیش نظر بیشتر ممالک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے مبینہ بدسلوکی کے ان الزامات کی تحقیقات کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے سابقہ دشمنوں سے بدلہ نہیں لینا چاہتے۔
یاد رہے کہ 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور حکومت میں طالبان نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور زیادہ تر ملازمتوں پر پابندی لگا دی تھی اور موجودہ دور حکومت میں بھی خواتین اور لڑکیوں کے مقابلے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کا رخ کرنے والے لڑکوں اور مرد اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔