دنیا میں 15 فیصد خواتین پولی سسٹک اووری سنڈورم نامی بیماری کا شکار ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں اس کی شرح دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے، جس کی بنیادی وجہ ورزش سے دوری، غیر صحتمندانہ غذا کا استعمال ہے جبکہ جینیاتی عوامل بھی اس بیماری کا ایک اہم سبب ہیں۔
پاکستانی گائناکولوجسٹس کی نمائندہ تنظیم ایس او جی پی کی سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر تزئین عباس، آغا خان اسپتال سے وابستہ ماہر امراض نسواں پروفیسر ڈاکٹر راحت قریشی، پی ایم اے کی پہلی خاتون صدر اور ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سونیا نقوی اور عباسی شہید اسپتال کی ہیڈ آف گائناکولوجی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ اسحاق نے کراچی پریس کلب میں پیر کے روز پریس کانفرنس کی۔
پولی سسٹک اووری سنڈورم کیا ہے؟
پولی سسٹک اووری سنڈروم یا پی سی او ایس نامی بیماری میں 10 سال کی بچی سے لے کر 50 سال تک کی عورتیں مبتلا ہوتی ہیں، پاکستان میں بیماریوں سے متعلق کوئی اعداد و شمار میسر نہیں ہوتے لیکن کلینکس میں آنے والی خواتین کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو خدشہ یہی ہے کہ پاکستان میں اس بیماری کی شرح دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہوگی۔
پروفیسر تزئین عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 15 فیصد سے کہیں زیادہ لڑکیاں اور عورتیں پی سی او ایس کا شکار ہیں، یہ بیماری 10 سال سے 50 سال کی عمر تک ہوسکتی ہے لیکن ہم 15 سے 45 سال کی عمر تک کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک جینیاتی بیماری بھی ہے، جن گھر کی خواتین کو یہ بیماری ہوگی وہاں مرد بھی موٹاپے کا شکار ہوں گے، جن خاندانوں میں یہ بیماری عام پائی جاتی ہے وہاں میٹابولک سنڈروم ضرور ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دل کی بیماریاں اور ہائپرٹینشن یعنی ہائی بلڈ پریشر عام ہوتا ہے۔
پروفیسر تزئین کا کہنا ہے کہ بیضہ دانی فیمیل ہارمونز زیادہ بناتی ہے لیکن اس بیماری میں میل ہارمونز زیادہ بنتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ماہواری وقت پر نہیں آتی، سرکل ڈسٹرب ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ ایک مہینے میں دوبار بھی پیریڈز آتے ہیں۔
ڈاکٹر تزئین عباس نے بتایا کہ اس بیماری کے نتیجے میں خواتین کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، شادی کے بعد بانجھ پن ہوتا ہے، شوگر کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے، اس کی تشخیص مریض کی کلینیکل ہسٹری اور طبی معائنے کے ذریعے بھی ہوتی ہے، کچھ خواتین علامات کے ساتھ آتی ہیں جیسے موٹاپا، چہرے پر بال نکل آنا اور بعض دفعہ پھر ہم بلڈ ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے بھی تشخیص کرتے ہیں۔
بیماری کی وجوہات اور بچاؤ
آغا خان اسپتال کی ماہر امراض نسواں پروفیسر ڈاکٹر راحت قریشی نے بتایا کہ یہ عام بیماریوں کی طرح نہیں ہے یہ ایک کمزوری ہے، اس کی وجہ سے ہارمونز تبدیل ہوجاتے ہیں، جس سے جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اس کی ہارمونل ٹریٹمنٹ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جینیٹک بیماری ہے جس کے ملٹی پل فیکٹرز ہوتے ہیں، ہمارے ہاں فزیکل ایکٹویٹیز نہیں ہوتیں، پیدل چلنا چھوڑ دیا ہے، موبائل کا استعمال شدت تک پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی جگہ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں، جنک فوڈ کا استعمال بہت ہے، جن مین چربی زیادہ ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بچاؤ کیلئے ضروری ہے کہ صحتمند طرز زندگی اپنایا جائے، سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بڑھایا جائے، گوشت کم کھائیں، چپس، جنک فوڈ اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال نہ کریں، اگر یہ احتیاط کرلی جائے تو اس کے نتیجے میں 10 فیصد پولی سسٹک اووریز کے کیس ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر راحت قریشی نے کہا کہ دنیا بھر میں 15 فیصد خواتین کو یہ بیماری ہے لیکن پاکستان میں ڈیٹا نہیں ہے، اس لئے آبادی کا تناسب نہیں بتاسکتے کہ پاکستان میں اس کی شرح کیا ہوگی، البتہ کلینکس پر آنیوالے مریضوں کے اعتبار سے یہ تعداد دنیا سے زیادہ ہی ہوگی، کیونکہ پاکستان میں ہائپر ٹینشن، ڈائبٹیز اور چیسٹ ڈیزیز زیادہ ہیں، زیادہ تر بچیاں ماہواری میں ڈسٹربنس کی وجہ سے آتی ہیں۔
آگہی اور احتیاط
عباسی شہید اسپتال کی ہیڈ آف گائناکولوجی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ اسحاق کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بیماری سے متعلق علم نہیں اور جنہیں علم ہے انہیں غلط فہمیاں بہت زیادہ ہیں، اس بیماری کو ختم نہیں کرسکتے لیکن اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور کنٹرول کرکے حمل بھی ٹھہر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک شیطانی چرخہ ہے، جس سے دوسری بیماریاں بھی بڑھتی ہیں، وزن میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے شوگر، بلڈ پریشر لاحق ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں بانجھ پن سب سے بڑا مسئلہ ہے، اگر 10 فیصد وزن کم کر لیا جائے تو اس سے بھی فرق پڑتا ہے لیکن اس کیلئے پوری فیملی کو کوشش کرنی چاہئے۔
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ اسحاق نے کہا کہ جن بچیوں کو ماہواری نہیں آتی انہیں دوائیں دیتے ہیں لیکن بہت سے لوگ دوائیں لینا نہیں چاہتے، اگر علاج نہیں کرائیں گے تو بچہ دانی کی دیوار موٹی ہوتی جاتی ہے جو کینسر کا سبب بھی بنتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ڈپریشن بڑھ جاتا ہے لوگ خودکشی کی کوششیں کرتے ہیں، لڑکیاں خوفزدہ ہوتی ہیں، سسرال کو نہ پتہ چل جائے۔
پی ایم اے کی صدر ڈاکٹر سونیا نقوی نے کہا کہ اکثر مائیں کہتی ہے ان کی بچیوں کی بچہ دانی میں سسٹ ہوگئے ہیں سرجری ہوگی، اس کی سرجری نہیں ہوتی، یہ قابل علاج ہے، 20 فیصد بچیوں کو پولی سسٹک اووری ہوتی ہے، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم بڑے بڑے ٹارگٹ نہیں دیتے، 5 سے 10 فیصد وزن کم کرنے سے فرق پڑتا ہے، جنک فوڈ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، فزیکل ایکٹویٹی بند ہوگئی ہے، آج کل اسکول چھوٹے چھوٹے ہیں، کھیل کے گراؤنڈز نہیں ہیں، بچیوں اور لڑکیوں کو فزیکل ایکٹیوٹی یعنی کہ کھیل کود اور ورزش معمول کا حصہ بنانا چاہئے۔