ٹک ٹاک پر مستقل طور پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ، پشاور ہائیکورٹ

معروف وڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی اور نازیبا مواد پر پابندی لگانے سے متعلق درخواست پر عدالت نے کہا کہ ملک کو باقی دنیا سے منقطع نہیں کر سکتے اس لیے ٹک ٹاک پر مستقل طور پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ معروف وڈیو ایپلی کیشن ‘ٹک ٹاک’ سے غیر اخلاقی مواد والی لاکھوں وڈیوز ہٹا دی گئی ہیں اور بڑے تعداد میں ایسے صارفین کے اکاؤنٹس بھی بند کیے گئے ہیں جو ایسی وڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر راشد خان کی سربراہی میں جسٹس محمد ابراہیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اسلامی ضابطہ حیات کے برعکس غیر قانونی مواد اپلوڈ کرنے پر پابندی لگانے کی درخواست کو خارج کردیا ہے۔

پی ٹی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ کمپنی سے مسلسل روابط میں ہے اور ایسا طریقہ کار تشکیل دیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپلوڈ کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس پہلے بند اور بعدازاں انہیں مکمل طور پر بلاک کردیا جائے گا۔

دو رکنی بینچ نے درخواست خارج کرنے کے مختصر احکامات جاری کیے اور کہا کہ دائر کی گئی درخواست کا مقصد پورا ہوچکا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں یہ درخواست پشاور سے تعلق رکھنے والے 40 رہائشیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے پی ٹی اے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو آئینی دفعات کی خلاف ورزی پر ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کے احکامات جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں عدالت نے ملک بھر میں ٹک ٹاک سروس پر پابندی عائد کردی تھی جس سے صارفین کی وڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن پر رسائی رک گئی تھی، بعدازاں یہ پابندی یکم اپریل 2021 کو ہٹا دی گئی تھی، عدالت نے پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹک ٹاک پر کوئی غیر اخلاقی اور فحش مواد اپلوڈ نہ کیا جائے۔

ایڈووکیٹ سارا علی خان اور نازش مظفر درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئیں جبکہ سینیئر وکیل جہانزیب محسود نے پی ٹی اے کی نمائندگی کی۔

جہانزیب محسود نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پیش رفت رپورٹ جمع کروائی ہے اور فلٹریشن طریقہ کار کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی اے کا براہ راست کمپنی سے رابطہ ہے اور قابل اعتراض مواد سے متعلق کمپنی کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی نے ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کیے گئے قابل اعتراض اور غیر مہذب مواد کی نگرانی کے لیے ماڈریٹرز کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ پی ٹی اے اس طرح کی کوششیں جاری رکھے، دوران سماعت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جہاں وہ ٹک ٹاک کا معاملہ دیکھ رہے ہیں وہیں اب مختلف سیاسی رہنما بھی سوشل میڈیا پر غیر مہذب زبان استعمال کرتے دیکھے گئے۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ حکومت کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ مختلف سیاسی رہنما اپنی تقاریر میں توہین آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ وہ ملک کو باقی دنیا سے منقطع نہیں کر سکتے اس لیے ٹک ٹاک پر مستقل طور پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی ایپلی کیشن ہے، تاہم اس ایپلی کیشن پر پر فلٹریشن کا طریقہ کار ہونا چاہیے۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ٹک ٹاک پر اپلوڈ کیا گیا مواد پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے جو شہریوں کی سماجی اور اخلاقی بہتری کی ضمانت دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں